عنوان: پھوڑا پھنسی کی دعا ’’بِسمِ اللهِ، تُرْبَةُ أرْضِنَا، بِرِيقَةِ بَعْضِنَا، يُشْفَى بِهِ سَقِيمُنَا، بإذْنِ رَبِّنَا“ سے متعلق حدیث کی تخریج اور تشریح (10973-No)

سوال: مفتی صاحب! مجھے کسی نے جلد کے امراض کے لیے یہ وظیفہ (بِسمِ اللهِ، تُرْبَةُ أرْضِنَا، بِرِيقَةِ بَعْضِنَا، يُشْفَى بِهِ سَقِيمُنَا، بإذْنِ رَبِّنَا) بتایا ہے، کیا یہ حدیث سے ثابت ہے؟

جواب: سوال میں ذکرکردہ دعا کے الفاظ احادیث مبارکہ سے ثابت ہیں، ذیل اس روایت کا ترجمہ اور مختصر تشریح ذکر کی جاتی ہے۔
ترجمہ:
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ جب کسی شخص کے بدن کے کسی حصے میں بیماری لاحق ہوتی یا اس میں کوئی پھوڑا یا زخم وغیرہ ہوتا، تو جناب نبی کریم ﷺ اپنی انگلی سے ایسے کرتے (راوی حدیث سفیان بن عیینہ رحمۃ اللہ علیہ نے عملی طور پر دکھانے کے لیے اپنی شہادت کی انگلی کو زمین پر رکھا، پھر اسے اٹھالیا) اور فرماتے: “بِسمِ اللهِ، تُرْبَةُ أرْضِنَا، بِرِيقَةِ بَعْضِنَا، يُشْفَى بِهِ سَقِيمُنَا، بإذْنِ رَبِّنَا”اللہ کے نام کے ساتھ، یہ ہمارے زمین کی مٹی ہے، اس کے ساتھ ہم میں سے کسی کا لعاب لگا ہوا ہے اور اس کی وجہ سے ہمارے رب کی اجازت سے ہمارا مریض شفایاب ہوگا“۔ (صحیح مسلم،حدیث نمبر:5719)
تخریج الحدیث:
۱۔سوال میں ذکرکردہ روایت کو امام مسلم(م261ھ) نے ’’صحیح مسلم‘‘(1724/4،رقم الحديث:2194،ط:دارإحياء التراث العربي) میں ذکر کیا ہے۔
۲۔حافظ ابن ابی شیبہ(م235ھ) نے’’مصنف ابن أبي شيبة‘‘(85/12،رقم الحديث:24035،30106،ط:دارالقبلة) میں ذکر کیا ہے۔
۳۔امام بخاری(م256ھ)نے ’’صحیح البخاری:(133/7،رقم الحديث:5745،5746،ط:دارطوق النجاة)میں ذکر کیا ہے۔
۴۔امام ابن ماجہ(م273ھ)نے ’’سنن ابن ماجہ‘‘(549/4،رقم الحديث:3520،ط:دارالرسالة العالمية) میں ذکر کیا ہے۔
۵۔امام ابوداؤد(م275ھ)نے ’’سنن أبی داؤد‘‘(141/1،رقم الحديث:3895،ط:دارالرسالة العالمية) میں ذکر کیا ہے۔
۶۔امام نسائی(م303ھ)نے’’السنن الکبری‘‘(78/7،رقم الحديث:7508،10795،ط:مؤسسةالرسالة)میں ذکرکیاہے۔
۷۔امام عبداللہ بن الزبیر الحمیدی(م319ھ)نے’’مسند الحميدي‘‘(274/1،رقم الحديث:254،ط:دارالسقا) میں ذکر کیا ہے۔
۸۔امام ابن حبان(م354ھ)نے ’’صحیح ابن حبان‘‘(238/7،رقم الحديث:2973،ط:مؤسسةالرسالة) میں ذکر کیا ہے۔
۹۔امام طبرانی (م360ھ)نے’’الدعاء‘‘(339،رقم الحديث:1112،1125،ط:دارالكتب العلمية) میں ذکر کیا ہے۔
۱۰۔امام حاکم(م405ھ)نے’’ مستدرک حاکم‘‘(459/4،رقم الحديث:8266،ط:دارالكتب العلمية) میں ذکر کیا ہے۔
تشریح:
1) جب کوئی شخص بیمار ہو جاتا یا اسے کوئی زخم لگ جاتا تو جناب نبی کریمﷺ اپنی شہادت کی انگلی پر اپنا کچھ لعاب مبارک لگاتے اور انگلی کو مٹی پر رکھ دیتے۔ یوں اس کے ساتھ کچھ مٹی لگ جاتی۔ پھر آپ ﷺ اسے اس جگہ پھیر دیتے، جہاں زخم یا بیماری ہوتی اور کہتے: “بِاسْمِ اللهِ، تُرْبَةُ أَرْضِنَا، بِرِيقَةِ بَعْضِنَا، يُشْفَى بِهِ سَقِيمُنَا، بِإِذْنِ رَبِّنَا” اللہ کے نام کے سے، یہ ہمارے زمین کی مٹی ہے، اس کے ساتھ ہم میں سے کسی کا لعاب لگا ہوا ہے اور اس کی وجہ سے ہمارے رب کی اجازت سے ہمارا مریض شفایاب ہوگا۔
2)"تربة ارضنا"( ہمارے زمین کی مٹی) سے کیا مراد ہے؟ صرف مدینہ منورہ کی زمین کی مٹی مراد ہے یا پوری دنیا کی زمین کی مٹی مراد ہے؟
اس بارے میں علماء کرام کے دونوں اقوال ہیں: جمہور علماء کرام فرماتے ہیں کہ "تربة ارضنا بریقة بعضنا" یہ دم صرف جناب رسول اللہ ﷺ اور مدینہ کی مٹی کے ساتھ خاص ہے، لیکن جمہور علماء کرام فرماتے ہیں کہ یہ جناب رسول اللہ ﷺ اور مدینہ کی زمین کے ساتھ خاص نہیں ہے، بلکہ یہ ہر دم کرنے والے اور پوری دنیا کی زمین کے لیے عام ہے، کیونکہ مٹی کی طبیعت میں اصل ٹھنڈک ہے، جو اس زخم کی حرارت کو دور کرتی ہے تو یہ صفت ہر مٹی میں پائی جاتی ہے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مختلف جگہوں کی مٹی میں تاثیر رکھی ہے۔ علامہ ابن قیم نے ’’زادالمعاد‘‘میں مٹی کی تاثیر کے مختلف واقعات نقل کرنے کے بعد فرمایا:’’جب عام مٹی کی یہ خاصیت ہوتی ہے تو زمین کی سب سے پاکیزہ اور بابرکت مٹی کا کیا کہنا جب کہ اس کے ساتھ جناب رسول اللہﷺ کا لعاب مبارک بھی مخلوط ہو گیا ہو اور اس میں اللہ کا نام بھی ہو اور تمام امور کو اللہ تعالیٰ ہی کی طرف سپرد بھی کیا گیا ہو۔
اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ مدینہ طیبہ کی عام مٹی میں شفا ہے۔ بالخصوص جذام اور برص کے لیے،اسی لیے مدینہ منورہ کی مٹی کو خاک شفا بھی کہتے ہیں، لہذا مدینہ منورہ کی مٹی یا کسی بھی جگہ کی مٹی بطور علاج استعمال کرنے میں شرعا کوئی حرج نہیں ہے،لیکن اسی کو مؤثر حقیقی سمجھتے ہوئے غلو اور حد سے تجاوز نہیں کرنا چاہیے۔
3)اگر کسی کے جسم پر کوئی زخم یاپھوڑا، پھنسی ہو یا کسی اور کے جسم پر کوئی زخم یا پھوڑا، پھنسی ہو تو شہادت کی انگلی پر تھوڑا سا تھوک لگا کر اسے زمین پر رکھے، پھر اسے اٹھاتے ہوئے ذکرکردہ کلمات کہے،تو اس کے جائز ہونے میں کوئی شبہ نہیں ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

صحيح مسلم: (رقم الحديث: 2194، 1724/4، ط: دار إحياء التراث العربي)
عن عائشة، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان إذا اشتكى الإنسان الشيء منه، أو كانت به قرحة أو جرح، قال: النبي صلى الله عليه وسلم بإصبعه هكذا، ووضع سفيان سبابته بالأرض، ثم رفعها «باسم الله، تربة أرضنا، بريقة بعضنا، ليشفى به سقيمنا، بإذن ربنا» قال ابن أبي شيبة: «يشفى» وقال زهير «ليشفى سقيمنا».

شرح النووي على صحيح مسلم: (184/14، ط: دار إحياء التراث العربي)
قال جمهور العلماء المراد بأرضنا هنا جملة الأرض وقيل أرض المدينة خاصة لبركتها والريقة أقل من الريق ومعنى الحديث أنه يأخذ من ريق نفسه على أصبعه السبابة ثم يضعها على التراب فيعلق بها منه شيء فيمسح به على الموضع الجريح أو العليل ويقول هذا الكلام في حال المسح والله أعلم.

فتح الباري لابن حجر العسقلاني: (208/10، ط: دار المعرفة)
وزعم بعض علمائنا أن السر فيه أن تراب الأرض لبرودته ويبسه يبرئ الموضع الذي به الألم ويمنع انصباب المواد إليه ليبسه مع منفعته في تجفيف الجراح واندمالها قال وقال في الريق إنه يختص بالتحليل والإنضاج وإبراء الجرح والورم لا سيما من الصائم الجائع وتعقبه القرطبي أن ذلك إنما يتم إذا وقعت المعالجة على قوانينها من مراعاة مقدار التراب والريق وملازمة ذلك في أوقاته وإلا فالنفث ووضع السبابة على الأرض إنما يتعلق بها ما ليس له بال ولا أثر وإنما هذا من باب التبرك بأسماء الله تعالى وآثار رسوله وأما وضع الإصبع بالأرض فلعله لخاصية في ذلك أو لحكمة إخفاء آثار القدرة بمباشرة الأسباب المعتادة وقال البيضاوي قد شهدت المباحث الطبية على أن للريق مدخلا في النضج وتعديل المزاج وتراب الوطن له تأثير في حفظ المزاج ودفع الضرر فقد ذكروا أنه ينبغي للمسافر أن يستصحب تراب أرضه إن عجز عن استصحاب مائها حتى إذا ورد المياه المختلفة جعل شيئا منه في سقائه ليأمن مضرة ذلك ثم إن الرقى والعزائم لها آثار عجيبة تتقاعد العقول عن الوصول إلى كنهها وقال التوربشتي كأن المراد بالتربة الإشارة إلى فطرة آدم والريقة الإشارة إلى النطفة كأنه تضرع بلسان الحال إنك اخترعت الأصل الأول من التراب ثم أبدعته منه من ماء مهين فهين عليك أن تشفي من كانت هذه نشأته.

زاد المعاد لابن قيم: (171/4، ط: مؤسسة الرسالة)
هذا من العلاج الميسر النافع المركب، وهي معالجة لطيفة يعالج بها القروح والجراحات الطرية، لا سيما عند عدم غيرها من الأدوية إذ كانت موجودة بكل أرض، وقد علم أن طبيعة التراب الخالص باردة يابسة مجففة لرطوبات القروح والجراحات التي تمنع الطبيعة من جودة فعلها، وسرعة اندمالها، لا سيما في البلاد الحارة، وأصحاب الأمزجة الحارة، فإن القروح والجراحات يتبعها في أكثر الأمر سوء مزاج حار، فيجتمع حرارة البلد والمزاج والجراح، وطبيعة التراب الخالص باردة يابسة أشد من برودة جميع الأدوية المفردة الباردة، فتقابل برودة التراب حرارة المرض، لا سيما إن كان التراب قد غسل وجفف، ويتبعها أيضا كثرة الرطوبات الرديئة، والسيلان، والتراب مجفف لها، مزيل لشدة يبسه، وتجفيفه للرطوبة الرديئة المانعة من برئها، ويحصل به - مع ذلك - تعديل مزاج العضو العليل، ومتى اعتدل مزاج العضو قويت قواه المدبرة، ودفعت عنه الألم بإذن الله.ومعنى الحديث: أنه يأخذ من ريق نفسه على أصبعه السبابة، ثم يضعها على التراب فيعلق بها منه شيء، فيمسح به على الجرح، ويقول هذا الكلام لما فيه من بركة ذكر اسم الله، وتفويض الأمر إليه، والتوكل عليه، فينضم أحد العلاجين إلى الآخر، فيقوى التأثير.وهل المراد بقوله: " تربة أرضنا " جميع الأرض أو أرض المدينة خاصة؟ فيه قولان، ولا ريب أن من التربة ما تكون فيه خاصية ينفع بخاصيته من أدواء كثيرة،ويشفي به أسقاما رديئة.قال جالينوس: رأيت بالإسكندرية مطحولين، ومستسقين كثيرا، يستعملون طين مصر، ويطلون به على سوقهم، وأفخاذهم وسواعدهم، وظهورهم، وأضلاعهم، فينتفعون به منفعة بينة.قال: وعلى هذا النحو فقد ينفع هذا الطلاء للأورام العفنة والمترهلة الرخوة، قال: وإني لأعرف قوما ترهلت أبدانهم كلها من كثرة استفراغ الدم من أسفل، انتفعوا بهذا الطين نفعا بينا، وقوما آخرين شفوا به أوجاعا مزمنة كانت متمكنة في بعض الأعضاء تمكنا شديدا، فبرأت وذهبت أصلا.وقال صاحب الكتاب المسيحي: قوة الطين المجلوب من كنوس - وهي جزيرة المصطكى - قوة تجلو وتغسل، وتنبت اللحم في القروح، وتختم القروح. انتهى.وإذا كان هذا في هذه التربات، فما الظن بأطيب تربة على وجه الأرض وأبركها، وقد خالطت ريق رسول الله - صلى الله عليه وسلم -، وقارنت رقيته باسم ربه، وتفويض الأمر إليه، وقد تقدم أن قوى الرقية وتأثيرها بحسب الراقي، وانفعال المرقي عن رقيته، وهذا أمر لا ينكره طبيب فاضل عاقل مسلم، فإن انتفى أحد الأوصاف، فليقل ما شاء.

خیر الفتاویٰ: (531/1، ط: مکتبة امدادیة)

فتاویٰ دارالعلوم زکریا: (214/1، ط: زمزم ببلشرز)

واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی

Print Full Screen Views: 776 Aug 30, 2023
phora phunsi / phoora phonsi ki dua "بِسمِ اللهِ، تُرْبَةُ أرْضِنَا، بِرِيقَةِ بَعْضِنَا، يُشْفَى بِهِ سَقِيمُنَا، بإذْنِ رَبِّنَا" se / say mutaliq hadis / hadees ki takhreig /takhreege or tashreeh

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Azkaar & Supplications

Managed by: Hamariweb.com / Islamuna.com

Copyright © Al-Ikhalsonline 2024.