سوال:
میں ایک ٹرانسپورٹ بروکر ہوں، کچھ پارٹیوں سے میرا رابطہ ہے جو مختلف شہروں میں اپنا مال بھجوانے کیلئے ہم سے رابطہ کرتے ہیں۔ اگر ہم ان کومناسب پیسوں میں گاڑی دے دیں تو وہ ہمیں فی گاڑی پانچ ہزار تک کمیشن دیتے ہیں۔ ہم مارکیٹ میں سے محتلف ٹرانسپورٹرز کو فون کر کے گاڑیوں کے ریٹ لیتے ہیں۔ چنانچہ جو ریٹ ہمیں مناسب لگیں وہ آگے پارٹی کو دے دیتے ہیں، مثال کے طور پر ہمیں لاہور کی گاڑی کا کرایہ ایک لاکھ ملا، ہم نے پارٹی کو ایک لاکھ پانچ ہزار روپے یا ایک لاکھ بیس ہزار روپے یا ایک لاکھ ہی بتا دیا۔ اب اگر پارٹی نے ہمیں کہا کہ ٹھیک ہے، گاڑی بھجوا دیں، تو ہم یوں گاڑی بھجوا کر دس ، پندرہ ہزار روپے گاڑی پر کما لیتے ہیں اور پانچ ہزار پارٹی سے کمیشن بھی لے لیتے ہیں۔ ہمارا گاڑی پر دس پندرہ ہزار روپے کا نفع اور پانچ ہزار کمیشن بن جاتا ہے۔
ایسی صورت میں بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ یہ طریقہ حلال نہیں ہے، کیونکہ آپ کی زمہ داری کچھ بھی نہیں ہے، ما سوائے فون کر کے سروس دینے کے اور اس سروس کے پارٹی آپ کو پانچ ہزار روپے دے رہی ہے، گویا آپ ایک طرح سے کمیشن پر ملازم ہوئے۔
جبکہ ہمارا یہ کہنا ہے کہ پارٹی مارکیٹ میں مختلف لوگوں کو ٹرانسپورٹرز یا بروکر کو یہ آڈر دیتی ہے۔ ہر کوئی اپنے حساب سے ریٹ دیتا ہے جس کے ریٹ مناسب لگیں اس کو آرڈر دے دیتی ہے۔ اب گو کہ ہم نے گاڑی پر پانچ دس ہزار روپے رکھ کر ریٹ دئے تھے، لیکن میرے کمپیٹیٹر سے اب بھی ریٹ کم تھے ۔ اب ہم نے اگر مارجن رکھا ہے تو بھی باقی ٹرانسپورٹر یا بروکر سے ہمارے سورس اچھی ہے یا ریٹ مناسب ہیں جس کی وجہ سے ہمیں آڈر ملا۔
ہمیں مارکیٹ میں سے ریٹ مناسب اس لئے ملتا ہے کہ ہمارے پاس آڈر زیادہ ہیں یا ہماری گڈ ویل ہے۔ یہ پیسے اوپر لینا اکثر پارٹی کے علم میں نہیں ہوتا، کبھی ہوتا بھی ہے، اور ٹرانسپورٹر کے علم میں کبھی ہوتا ہے کبھی نہیں ، لیکن ٹرانسپورٹر کا یہ کہنا ہے کہ مجھے میرے پیسے دے دیں، میری طرف سے آپ جتنے پیسے اوپر لینا چاہیں، ہمیں ان سے کوئی سروکار نہیں ہے۔ آیا یہ پیسہ ہمارے لیے حلال ہے؟
جواب: سوال میں پوچھی گئی بظاہر کمیشن ایجنٹ اور وکیل کی ہے کہ آپ اپنے کسٹمر کے کہنے پر اس کے وکیل/ایجنٹ کے طور پر گاڑی کا انتظام کرکے دیتے ہیں، ایسی صورت میں آپ چونکہ آپ اپنے کسٹمر کے ایجنٹ/وکیل ہیں، اس لئے آپ صرف اپنے کسٹمر سے طے شدہ اجرت/کمیشن لے سکتے ہیں۔ ٹرانسپورٹر سے کم کرایہ کی بات کرکے اپنے کسٹمر (موکل) کو زیادہ کرایہ پر دیکر اپنے لئے خفیہ طور پر رقم (مارجن) رکھنا شرعا جائز نہیں ہوگا، تاہم آپ اپنے کسٹمر سے باہمی رضامندی کے ساتھ کوئی بھی اجرت مقرر کرسکتے ہیں۔
البتہ اگر آپ کسٹمر کے ایجنٹ / وکیل کے طور پر کام نہیں کرتے، اس کے علاوہ کوئی صورت ہے تو اس کی وضاحت لکھ کر دوبارہ معلوم کرسکتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
رد المحتار: (10/6، ط: دار الفکر)
(و) اعلم أن (الأجر لا يلزم بالعقد فلا يجب تسليمه) به (بل بتعجيله أو شرطه في الإجارة) المنجزة۔۔الخ
و فیه ایضاً: (47/6، ط: دار الفکر)
قال في البزازية: إجارة السمسار والمنادي والحمامي والصكاك وما لا يقدر فيه الوقت ولا العمل تجوز لما كان للناس به حاجة ويطيب الأجر المأخوذ
رد المحتار: (كتاب البيوع، 560/4، ط: سعيد)
وأما الدلال فإن باع العين بنفسه بإذن ربها فأجرته على البائع وإن سعى بينهما وباع المالك بنفسه يعتبر العرف وتمامه في شرح الوهبانية.
(قوله: فأجرته على البائع) وليس له أخذ شيء من المشتري؛ لأنه هو العاقد حقيقة شرح الوهبانية وظاهره أنه لا يعتبر العرف هنا؛ لأنه لا وجه له. (قوله: يعتبر العرف) فتجب الدلالة على البائع أو المشتري أو عليهما بحسب العرف جامع الفصولين
واللہ تعالیٰ أعلم بالصواب
دار الافتاء الاخلاص،کراچی