عنوان: طلاق کے مطالبے پر "ایک، دو، تین تو میری ماں بہن ہو گئی" کہنے کا حکم (10993-No)

سوال: مفتی صاحب! ایک مسئلے کے بارے میں رہنمائی فرما دیں ہمارا علاقے بلوچستان میں ایک شخص کو کچھ لوگوں نے فورس کر کے یہ کہا کہ تم اپنی گھر والی کو طلاق دے دو ورنہ تمہارے ساتھ برا ہو جائے گا۔ برا ہونے سے ان کی مراد یہ تھی کہ تمہاری پٹائی ہو گی، مطلب یہ کہ وہ اس کو ڈرا رہے تھے، تو اس شخص نے جب ان کے اس ارادے کو دیکھا تو اس نے مطالبہ کیا کہ مجھے دس گرام سونا دے دو تو میں طلاق دے دیتا ہوں تو انہوں نے کہا ٹھیک ہے ہم آپ کو دس گرام سنا دے دیں گے اور آپ طلاق دے دو، اس کے بعد انہوں نے اس شخص کو سونا دیا اور اس نے ان کے سامنے اپنی بیوی کو کہا: ایک دو تین تو میری ماں بہن ہو گئی، اب جب بعد اس شخص نے سونے کا وزن کروا دو وہ پورا دس گرام نہیں تھا، بلکہ آٹھ گرام تھا۔ اب پوچھنا یہ ہے کہ کیا اس صورت میں بھی طلاق ہو گئی یا نہیں ہوئی کیونکہ سونا تو پورا نہیں ملا ہے؟ اللہ تعالیٰ آپ کو بہت جزائے خیر عطا فرمائے آمین

جواب: واضح رہے کہ مذاکرہ طلاق کے وقت بیوی کی طرف نسبت کرکے مذکورہ اعداد "ایک، دو، تین" کہنے سے طلاق واقع ہوجاتی ہے، لہٰذا پوچھی گئی صورت میں چونکہ مذکورہ شخص نے طلاق کے مطالبے پر اپنی بيوی سے کہا: "ایک، دو، تین تو میری ماں بہن ہو گئی" لہٰذا یہ الفاظ کہنے سے اس کی بیوی پر تین طلاقیں واقع ہوکر حرمتِ مغلظہ ثابت ہوگئی ہے اور اب دونوں کا ایک ساتھ رہنا جائز نہیں ہے۔
جہاں سونے کا تعلق ہے تو چونکہ مذکورہ لوگوں نے دس گرام سونے کے عوض طلاق حاصل کی ہے، اس لیے ان پر لازم ہے کہ اس شخص کو دس گرام سونا پورا کرکے دیں، تاہم سونے کی مطلوبہ مقدار پوری نہ ہونے کی وجہ سے طلاق پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

الفتاوی الخانیة: (227/1، ط: ط: الشاملة الذهبية)
ولو قال لامرأته توبسه في حال مذاكرة الطلاق أو الغضب طلقت ثلثاً.

الفتاوى البزازية: (36/2، ط: الشاملة الذهبية)
تراسه ذكر الصدر أنه لا يقع لأنه لا أضمار في الفارسية والمختار الوقوع إذا نوى وقد ذكرنا عن صاحب المنظومة جريان الأضمار في الفارسية ولفظه يحتمل الطلاق وغيره فإذا نوى تعين وفي موضع آخر قال الصدر يقع وقال أبو القاسم لا وقال غيره أن في المذاكرة أو الغضب يقع وإلا لا …أين زن كه مراست بسه لا يقع وقال أبو بكر العياضى إن نوى يقع وقال أبو بكر الورشتني رحمه الله طلقت امرأته لأنه وجدت الإضافة في أول الكلام.

کذا في فتاویٰ دار العلوم کراتشی: رقم الفتوى: 1000/30

واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی

Print Full Screen Views: 226 Sep 04, 2023
talaq k mutalbey par "aik,dou,teen too mere maa behen hogai" kehne ka hukum

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Divorce

Managed by: Hamariweb.com / Islamuna.com

Copyright © Al-Ikhalsonline 2024.