سوال:
میرا ایک دوست ٹائر کا کاروبار کرتا ہے، لیکن وہ اس میں دھوکہ اور چوری کرتا ہے، کسی کا ٹایئربدل دیتا ہے، کبھی اس سے ٹیوب لنگوٹی وغیرہ چوری کرکے بدل دیتا ہے، اس کام پر جو گناہ اور سزا ہے دنیا اور آخرت میں اس بارے میں رہنمائی کریں تاکہ میں اسے سمجھا سکوں۔ جزاک اللہ خیرا
جواب: چوری کرنا گناہِ کبیرہ ہے اور اسے ہر مذہب و معاشرہ میں جرم سمجھا جاتا ہے۔ شریعتِ اسلامیہ میں چور کے لیے نہ صرف سخت وعیدیں بیان کی گئی ہیں، بلکہ دنیا میں مال کی ایک مخصوص مقدار چوری کرنے پر چور کے ہاتھ کو بطورِ حد کاٹنے کی سزا بھی مقرر کی گئی ہے۔ چنانچہ قرآن کریم میں ارشادِ باری ہے کہ ’’ اور جو مرد چوری کرے اور جو عورت چوری کرے، دونوں کے ہاتھ کاٹ دو، تاکہ ان کو اپنے کیے کا بدلہ ملے، اور اللہ کی طرف سے عبرت ناک سزا ہو۔ اور اللہ صاحب اقتدار بھی ہے، صاحب حکمت بھی۔‘‘ (المائدہ:۳۸)
احادیث مبارکہ میں بھی کسی کا مال چوری کرنے پر سخت وعیدیں بیان کی گئی ہیں، ذیل میں اس حوالے سے چند احادیث مبارکہ ذکر کی جاتی ہیں:
۱) حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "جس وقت زانی زنا کرتا ہے تو وہ اس وقت مومن نہیں ہوتا، جب وہ شراب پیتا ہے تو شراب نوشی کے وقت وہ مومن نہیں ہوتا، جس وقت چور چوری کرتا ہے تو اس وقت وہ مومن نہیں ہوتا، جب لوٹنے والا لوٹتا ہے تو وہ لوٹنے کے وقت مومن نہیں ہوتا، جبکہ لوگ اسے دیکھ رہے ہوتے ہیں تو وہ اس وقت مومن نہیں ہوتا۔" (صحیح بخاری، حدیث نمبر:2475)
۲) سورج گرہن سے متعلق حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ایک طویل روایت میں چوری کرنے والے کی حالت کو بیان کیا گیا ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: "آگ (میرے سامنے) لائی گئی اور یہ اس وقت ہوا جب تم نے مجھے دیکھا کہ میں اس ڈر سے پیچھے ہٹا ہوں کہ اس کی لپٹیں مجھ تک نہ پہنچیں، یہاں تک کہ میں نے اس آگ میں مُڑے ہوئے سرے والی چھڑی کے مالک کو دیکھ لیا، وہ آگ میں اپنی انتڑیاں کھینچ رہا ہے۔ وہ اپنی اس مُڑے ہوئے سرے والی چھڑی کے ذریعے سے حاجیوں کی (چیزیں) چوری کرتا تھا۔" (مسلم،حدیث نمبر:904)
۳) حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺنے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ نے چور پر لعنت کی ہے کہ ایک انڈا چراتا ہے اور اس کا ہاتھ کاٹا جاتا ہے، ایک رسی چراتا ہے اور اس کا ہاتھ کاٹا جاتا ہے‘‘۔ (صحيح بخاري، حديث نمبر:6799)
۴) حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’کیا تم جانتے ہو کہ مفلس کون ہے؟" صحابہ نے کہا: ہمارے نزدیک مفلس وہ شخص ہے جس کے پاس نہ درہم ہو، نہ کوئی ساز و سامان۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’میری امت کا مفلس وہ شخص ہے جو قیامت کے دن نماز، روزہ اور زکاۃ لے کر آئے گا اور اس طرح آئے گا کہ (دنیا میں) اس کو گالی دی ہو گی، اس پر بہتان لگایا ہوگا، اس کا مال کھایا ہو گا، اس کا خون بہایا ہوگا اور اس کو مارا ہو گا تو اس کی نیکیوں میں سے اس کو بھی دیا جائے گا اور اس کو بھی دیا جائے گا اور اگر اس پر جو ذمہ ہے اس کی ادائیگی سے پہلے اس کی ساری نیکیاں ختم ہو جائیں گی تو ان کے گناہوں کو لے کر اس پر ڈالا جائے گا، پھر اس کو جہنم میں پھینک دیا جائے گا‘‘۔ (مسلم،حدیث نمبر:2581)
ان احادیث مبارکہ کو پڑھنے کے بعد کوئی عقلمند انسان ایسا نہیں کرسکتا کہ دنیا کے معمولی اور عارضی فائدے کے لیے دوسرے کا مال ناحق کھائے یا چوری کرے، لہذا اگر کسی سے نادانی میں یہ گناہ سرزد ہوگیا ہے تو اُسے چاہیے کہ فوراً توبہ کرے اور جو مال ناحق چرایا ہے، اس کو واپس کرے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
القرآن الكريم: (المائدة، الایة: 38)
وَالسَّارِقُ وَالسَّارِقَةُ فَاقْطَعُوا أَيْدِيَهُمَا جَزَاءً بِمَا كَسَبَا نَكَالًا مِنَ اللَّهِ وَاللَّهُ عَزِيزٌ حَكِيمٌ o
صحيح البخاري: (رقم الحديث: 2475، 136/3، ط: دار طوق النجاة)
عن أبي هريرة رضي الله عنه، قال: قال النبي صلى الله عليه وسلم: «لا يزني الزاني حين يزني وهو مؤمن، ولا يشرب الخمر حين يشرب وهو مؤمن، ولا يسرق حين يسرق وهو مؤمن، ولا ينتهب نهبة، يرفع الناس إليه فيها أبصارهم حين ينتهبها وهو مؤمن».
صحيح مسلم: (رقم الحديث: 904، 623/2، ط: دار إحياء التراث العربي)
فقد جاء في حديث الكسوف عن جابر، وفيه قوله صلى الله عليه وسلم: لقد جيء بالنار، وذلكم حين رأيتموني تأخرت، مخافة أن يصيبني من لفحها، وحتى رأيت فيها صاحب المحجن يجر قصبه في النار، كان يسرق الحاج بمحجنه، فإن فطن له قال: إنما تعلق بمحجني، وإن غفل عنه ذهب به.
صحيح البخاري: (رقم الحديث: 6799، 161/8، ط: دار طوق النجاة)
حدثنا الأعمش، قال: سمعت أبا صالح، قال: سمعت أبا هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «لعن الله السارق، يسرق البيضة فتقطع يده، ويسرق الحبل فتقطع يده».
صحيح مسلم: (رقم الحديث: 2581، 1997/4، ط: دار إحياء التراث العربي)
عن أبي هريرة، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: «أتدرون ما المفلس؟» قالوا: المفلس فينا من لا درهم له ولا متاع، فقال: «إن المفلس من أمتي يأتي يوم القيامة بصلاة، وصيام، وزكاة، ويأتي قد شتم هذا، وقذف هذا، وأكل مال هذا، وسفك دم هذا، وضرب هذا، فيعطى هذا من حسناته، وهذا من حسناته، فإن فنيت حسناته قبل أن يقضى ما عليه أخذ من خطاياهم فطرحت عليه، ثم طرح في النار».
نضرة النعيم: (4626/10، ط: دار الوسيلة)
وقال ابن حجر: عدّ السّرقة من الكبائر هو ما اتّفق عليه العلماء، وهو ما صرّحت به الأحاديث، والظّاهر أنّه لا فرق في كونها كبيرة بين الموجبة للقطع، وعدم الموجبة له لشبهة لا تقتضي حلّ الأخذ، كأن سرق حصر مسجد، أو سرق مالا غير محرّز، وقال الحليميّ: وسرقة الشّيء التّافه صغيرة، فإن كان المسروق منه مسكينا لا غنى به عمّا أخذ منه صارت كبيرة وإن لم توجب الحدّ.. قال: وأخذ أموال النّاس بغير حقّ كبيرة، فإن كان المأخوذ ماله فقيرا أو أصلا للآخذ أو أخذ قهرا، أو كرها، أو على سبيل القمار فهو فاحشة، فإن كان المأخوذ شيئا تافها والمأخوذ منه غنيّا لا يتبيّن عليه من ذلك ضرر، فذلك صغيرة.
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی