سوال:
مجھے میری آنٹی نے تین لاکھ روپے دیے تھے، ان کی کمائی کا ذریعہ قومی بچت کا سود ہے، ان کی کمائی کا کوئی اور ذریعہ نہیں ہے، کیا میں اس رقم سے تجارت کرسکتا ہوں؟ اگر اس سے تجارت کرلوں اور نفع سے تین لاکھ روپے صدقہ کردوں تو کیا وہ تجارت میرے لیے حلال ہوجائے گی؟ نیز اس تین لاکھ روہے کا مجھے کیا کرنا ہوگا کہ میں اس سے نفع کما سکوں؟
جواب: واضح رہے کہ قومی بچت اسکیم کا موجودہ طریقہ کار غیر شرعی ہے اور اس سے حاصل ہونے والا نفع (Interest) در حقیقت سود ہے، جس کا لین دین ناجائز اور حرام ہے۔
لہٰذا مذکورہ صورت میں آپ کا اپنی آنٹی سے سودی رقم لینا اور اس کو (ان کے لئے یا اپنے لئے) کاروبار میں لگانا کسی بھی طرح جائز نہیں ہے نیز اس سودی رقم سے كسی اور طریقے سے بھی فائدہ اٹھانا جائز نہیں ہے، تاہم آپ کی آنٹی نے جو رقم جمع کرائی تھی اس اصل رقم (Capital amount) کا استعمال جائز اور حلال ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
فقه البيوع علی المذاهب الأربعة: (1006/2، ط: مکتبه معارف القرآن)
وإنّه حرامٌ للغاصب الانتفاعُ به أو التّصرّفُ فيه، فيجبُ عليه أن يرُدّه إلى مالكه، أوإلى وارثه بعد وفاتِه، وإن لم يُمكن ذلك لعدم معرفةِ المالك أو وارثه، أولتعذّر الرّدّ عليه لسببٍ من الأسباب،وجب عليه التّخلّصُ منه بتصدّقه عنه من غير نيّةِ ثوابِ الصّدقةِ لنفسه.
الهداية: (61/3، ط: دار إحياء التراث العربي)
لأن الربا هو الفضل المستحق لأحد المتعاقدين في المعاوضة الخالي عن عوض شرط فيه.
رد المحتار: (385/6، ط: دار الفکر)
سبيل الكسب الخبيث التصدق إذا تعذر الرد على صاحبه.
والله تعالىٰ أعلم بالصواب
دارالافتاء الإخلاص،کراچی