عنوان: مسئلہ تقدیر سمجھنے کے لئے چند عقلی دلائل(1102-No)

سوال: مسئلہ تقدیر والی حدیث میں ایک بات سمجھ نہیں آئی کہ اگر انسان کا جنتی یا جہنمی ہونا لکھ دیا جاتا ہے، جیسا کہ حدیث میں بیان ہے کہ اگر وہ جنت میں جانے والا ہے تو اگر وہ گناہ کر کے جہنم سے ایک ہاتھ قریب ہوگا تو وہ نیک کام کرنا شروع ہوجائے گا اور جنت چلا جائے گا، اور اسی کا اُلٹ جہنمی کا بیان ہے۔ حضرت ! حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ جنت اور دوزخ یہ تو سب قدرت کے فیصلے ہیں تو انسان کے ہاتھ میں کیا ہے؟

جواب: تقدیر کا مسئلہ ہمارے ایمانیات کا حصہ ہے اور اکثر شیطان اس بارے میں لوگوں کو وسوسے ڈالتا ہے ، اس لئے اس مسئلہ کو تفصیل سے بیان کیا جاتا ہے، جوابات کو سمجھنے سے پہلے "مسئلہ تقدیر" سے متعلق چند باتیں سمجھنا ضروری ہیں:
۱)تقدیر کا عقیدہ قرآن مجید اور احادیثِ شریفہ میں مذکور ہے اور یہ  حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم، صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اور تمام اہلِ حق کا متفق علیہ عقیدہ ہے، اس لئے اس عقیدہ سے انکار کرنا یا اس کا مذاق اُڑانا اپنے دین و ایمان کا مذاق اُڑانا ہے۔
۲) اس مسئلے میں بحث سے اشکالات کا دروازہ کھلتا ہے، اسی لئے حضور ﷺ نے اس مسئلے میں بحث کرنے سے منع فرمایا ہے، چنانچہ حدیث شریف میں آتا ہے:ترجمہ:" حضرت ابوھریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم تقدیر کے مسئلہ پر بحث کر رہے تھے کہ اتنے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے، ہمیں بحث میں الجھے ہوئے دیکھ کر بہت غصے ہوئے، یہاں تک کہ چہرہٴ انور ایسا سرخ ہوگیا گویا رخسارِ مبارک میں انار نچوڑ دیا گیا ہو اور بہت ہی تیز لہجے میں فرمایا:"کیا تمہیں اس بات کا حکم دیا گیا ہے؟ کیا میں یہی چیز دے کر بھیجا گیا ہوں؟ تم سے پہلے لوگ اس وقت ہلاک ہوئے، جب انہوں نے اس مسئلہ میں جھگڑا کیا، (لہذا)میں تمہیں قسم دیتا ہوں کہ اس میں ہرگز نہ جھگڑنا"(سنن الترمذی)
مسئلہ تقدیر سمجھنے کے لئے عقلی دلائل :
مسئلہ تقدیر کے سلسلے میں یہ بات سمجھنا ضروری ہے کہ یہ بات صحیح ہے کہ ہر بات پہلے سے لکھی ہوئی ہے، لیکن لکھا ہوا کیا ہے؟ یہ بات پہلے سے کسی کو پتہ نہیں ہے، لہذا مثلاً اگر ہمیں پہلے سے علم ہو کہ ہماری تقدیر میں جھوٹ بولنا لکھا ہوا ہے اور پھر ہم جھوٹ بولیں اور قیامت میں اللہ تعالی اس پر سزا دیں تو ہم اللہ سے کہہ سکتے ہیں کہ یااللہ میری تقدیر میں تو جھوٹ بولنا پہلے سےلکھا ہوا تھا، اسی لئے میں نے جھوٹ بولا، تب تو یہ بات صحیح ہے، لیکن چونکہ ہمیں پہلے سے اس کا علم نہیں، اس لئے اللہ تعالی کہہ سکتا ہے کہ کیاتمھیں پہلے سے اس کا علم تھا کہ تمہاری تقدیر میں جھوٹ بولنا لکھا ہوا ہے؟ چنانچہ یہی آزمائش ہے، اسی لئے ہمیں نیکی پر اجر ملتا ہے اور گناہ پر پکڑ ہوتی ہے، ورنہ ہمیں نیکی پر اجر نہیں ملنا چاہیئے کہ پہلے سے ہمارے نصیب اور تقدیر میں نیکی کرنا لکھا ہوا ہے۔
چنانچہ اگر کوئی زہر کھا کر مرجائے تو خودکشی اور حرام موت مرے گا، اب اگر اللہ تعالی اس سے پوچھے کہ تم نے ایسا کیوں کیا تو وہ کہہ سکتا ہے کہ یہ موت کا وقت تو پہلے سے اسی وقت لکھا ہوا تھا، میں نے اسی وقت مرنا تھا، اس پر اللہ تعالی کہہ سکتے ہیں کہ وہ تو میں نے لکھا ہوا تھا، لیکن تمھیں اس کا علم تو نہیں دیا گیا تھا کہ اس وقت مرنا ہے۔
دوسری ایک اور مثال سے بات سمجھیے کہ زید نے بکر کا قتل کردیا اب بکر کے وارثین زید سے قصاص لینے پہنچے تو زید کہنے لگا کہ بھائی! ہر آدمی کی موت کا وقت مقرر ہے اور اس پر ہم سب کا ایمان ہے، لہذا میں نے تو ایسا کام کیا جو ہونا ہی تھا اور اللہ تعالی نے لکھا ہوا تھا، اس کو کوئی ٹال نہیں سکتا ہے، اب آپ بتائیے کہ دنیا کا کوئی قانون زید کی یہ دلیل کہ وہ تقدیر کے آگے مجبور محض ہے، مانے گا؟ نہیں، بلکہ ہر قانون اسے سزا دے گا اور کہے گا کہ ٹھیک ہے کہ ہر آدمی کی موت کا وقت مقرر ہے، لیکن تمھیں اس کا علم کیسے ہوا کہ اس کی موت کا وقت آچکا ہے ، چنانچہ زید کو دنیا کے ہر قانون کے تحت سزا دی جائے گی۔
خلاصہ یہ ہے کہ تقدیر برحق ہے اور تقدیر کی وجہ سے کوئی معذور نہیں بن جاتا، لہذا کوئی یہ نہیں کہہ سکتا ہے کہ گناہ میرے لئے حلال ہوگیا اور یہ بھی نہیں کہہ سکتا کہ اللہ تعالی مجھے جہنم ہی میں کیوں ڈال رہا ہے، جبکہ ہر چیز پہلے سے لکھی ہوئی ہے۔
آخری اہم بات یہ ہے کہ تقدیر بنیادی طور پر" علم اللہ السابق" کا نام ہے۔ چونکہ اللہ تعالی ماضی، مستقبل اور تمام چیزوں کا علم رکھتا ہے، لہذا اس کو پتہ ہے کہ کون جنت میں جائے گا اور کون جہنم میں؟ اللہ تعالی کے اسی علم کا نام"تقدیر" ہے۔
اس سے زیادہ باریکی میں تقدیر کے مسئلے میں جانا جائز نہیں ہے، نیز اللہ پاک کی ذات کسی پرظلم کرنے والی نہیں کہ کسی جنتی کو جہنم میں پھینک دے یا کسی جہنمی کو جنت میں ڈال دے۔ بس یہ ایک آزمائش ہے کہ ہمیں اپنے انجام کا علم نہیں ہے، اس لئے نیک کام کرتے رہنا چاہیئے تاکہ جنت کے مستحق ہوجائیں اور جہنم سے بچ جائیں۔ امید ہے کہ ان گزارشات سے کافی حد تک بات سمجھنے میں آسانی ہوگئی ہوگی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

سنن الترمذی: (باب ما جاء فی التشدید فی القدر، 479/2، ط ، مکتبہ رحمانیہ)

عن ابی ھریرۃ قال خرج علینا رسول اللہ ﷺ و نحن نتنازع فی القدر فغضب حتی احمر وجھہ حتی کانما فقیء فی وجنتیہ الرمّان ، فقال : أبھذا أمرتم ام بہذا أرسلت الیکم ؟ انما ہلک من کان قبلکم حین تنازعوا فی ھذا الامر، عزمت علیکم عزمت علیکم الاتنازعوا فیہ

واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی

Print Full Screen Views: 1408 Mar 21, 2019
Masla Taqdeer samajnay samajhnay kae liyae / liye chand aqli dalayil / dalael, A few rational arguments to understand the problem / issue of destiny

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Beliefs

Managed by: Hamariweb.com / Islamuna.com

Copyright © Al-Ikhalsonline 2024.