عنوان: دودھ پیتے لڑکے اور لڑکى کے پیشاب کو پاک کرنے سے متعلق حدیث کى تحقیق وتشریح (11034-No)

سوال: مفتی صاحب! کیا مندرجہ ذیل روایت درست ہے، اگر درست ہے تو اس کا مطلب بھی وضاحت سے سمجھادیں۔ "رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ بچے کے پیشاب پر پانی کے چھینٹے مارنا بھی کافی ہے اور بچی کا پیشاب جس چیز پر لگ جائے اسے دھویا جائے گا"۔ (مسند احمد، حدیث نمبر: 531)

جواب: سوال میں مذکور حدیث کو امام ترمذى رحمہ اللہ (م 279ھ) نے اپنى کتاب "سنن ترمذى" میں نقل فرما کر اس کے متعلق فرمایا ہے: یہ حدیث "حسن" ہے، نیز حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ (م 852 ھ) نے اس حدیث کے متعلق "التلخیص الحبیر" میں فرمایا ہے: اس کى "سند صحیح" ہے۔
ذیل میں اس حدیث کا ترجمہ اور اس کى تشریح نقل کى جاتى ہے:
ترجمہ:
حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے مروى ہے کہ رسول اکرم صلى اللہ علیہ وسلم نے دودھ پیتے بچے کے پیشاب کے بارے میں ارشاد فرمایا: "لڑکے کے پیشاب پر پانى کا چھینٹا دیا جائے گا اور لڑکى کے پیشاب کو دھویا جائے گا"۔
(سنن ترمذى: حدیث نمبر: 610)
تشریح:
ایسے دودھ پیتے بچے جن کى غذا صرف ماں کا دودھ ہى ہو اور وہ اس کے علاوہ کوئى اور غذا نہ لیتے ہوں، تو ایسے لڑکے اور لڑکى کا پیشاب تمام فقہاء کرام کے نزدیک نا پاک ہے، تاہم ايسا پیشاب جہاں لگا ہو تو اس جگہ کو پاک کرنے کے طریقے میں فقہاء کرام کا اختلاف ہے:
1) حضرت امام شافعى اور امام احمد بن حنبل رحمہما اللہ کے نزدیک دودھ پیتے لڑکى کے پیشاب کو دھونا ضرورى ہے، لیکن دودھ پیتے لڑکے کے پیشاب کو دھونا ضرورى نہیں ہے، البتہ اس پر پانى کے چھینٹے مار دینا بھى کافى ہو جائے گا۔
(چھینٹے مارنے کا مطلب ان حضرات کے نزدیک یہ ہے کہ اس پیشاب کى جگہ پر اتنا پانى ٹپکا دیا جائے کہ وہ پیشاب کو ڈھانپ لے، اس میں سے قطرے نہ ٹپکنے لگیں، البتہ اگر اس کو نچوڑنا چاہیں تو اس میں قطرے ٹپک پڑیں)۔
مذکورہ بالا حدیث میں جو مسئلہ بیان فرمایا گیا ہے، اسی سے امام شافعى اور امام احمد بن حنبل رحمہما اللہ نے اپنے موقف پر استدلال فرمایا ہے۔
2) حضرت امام ابو حنیفہ اور امام مالک رحمہما اللہ کے نزدیک دودھ پیتے لڑکے اور لڑکى دونوں کے پیشاب کو دھونا ضرورى ہے، البتہ دودھ پیتے لڑکى کے پیشاب کو مبالغہ کے ساتھ دھونا چاہیے اور لڑکے کے پیشاب کو دھونے میں زیادہ مبالغہ کى ضرورت نہیں ہے۔
امام ابو حنیفہ اور امام مالک رحمہما اللہ نے جو یہ موقف اختیار فرمایا ہے، یہ بھى صحیح احادیث مبارکہ سے ثابت ہے، اس بارے میں ان حضرات کا استدلال اول تو ان احادیث مبارکہ کے عموم سے ہے، جن میں پیشاب سے بچنے کى تاکید وارد ہوئى ہے اور اسے نجس قرار دیا گیا ہے۔
دوسرا یہ کہ پیشاب کى نجاست کو دھونے کے متعلق جو احادیث مبارکہ آئی ہیں، ان میں پانچ طرح کے الفاظ وارد ہوئے ہیں:
("نَضْحٌ"، "رَشٌّ": چھینٹا دینا، پانی چھڑکنا، "صَبٌّ": پانى انڈیلنا، "إِتْبَاعُ المَاء": پیشاب پر اتنا پانى بہانا کہ پیشاب دوسرى طرف کو بہہ جائے، "غَسْلٌ": دھونا)
ان میں سے "صَبٌّ، إِتْبَاعُ المَاءِ اور غَسْلٌ" یہ تینوں الفاظ دھونے کے معنى میں قطعی طور پر صراحت کے ساتھ دلالت کرتے ہیں، جبکہ اس معنی کے دوسرے الفاظ: (نَضْحٌ اور رَشٌّ) میں دونوں معنوں کا احتمال ہے: دھونا بھی اور چھینٹے مارنا بھی، نیز دیگر احادیث مبارکہ میں ان دونوں لفظوں کو دھونے معنی میں بھی استعمال کیا گیا ہے۔
لہذا جن الفاظ سے دھونے کی صراحت قطعی طور پر ثابت ہو رہی ہے، ان کو اختیار کیا جائے گا، اور جن میں احتمال ہے، ان کے متعلق یہ مفہوم بیان کیا گیا ہے کہ ان الفاظ سے "غسل خفیف" (بغیر مبالغہ کے دھونا) مراد ہے اور یہی بات احتیاط کے مطابق ہے، لہذا اس طرح تمام احادیث پر عمل ہو جائے گا۔
ذیل میں وہ روایت نقل کی جاتی ہے جو حضرت امام ابو حنیفہ اور امام مالک رحمہما اللّٰہ کی وہ روایت نقل کی جاتی ہے جن سے ان حضرات نے استدلال فرمایا ہے:
ترجمہ:
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان فرماتى ہیں کہ رسول اکرم صلى اللہ علیہ وسلم کى خدمت میں دودھ پیتے بچوں کو لایا جاتا تھا،آپ ان کے لیے دعا فرماتے تھے، ایک مرتبہ ایک بچے کو آپ کى خدمت اقدس میں لایا گیا، تو اس نے پیشاب کر دیا،تو آپ صلى اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: "اس پرپانى بہاؤ"۔
(شرح معانى الآثار: حدیث نمبر:598)۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

سنن الترمذي: (أبواب السفر، باب ما ذكر في نضح بول الغلام الرضيع، رقم الحديث: 610، 599/1، ط: دار الغرب الإسلامي)
عن علي بن أبي طالب ،أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال في بول الغلام الرضيع: "‌ينضح بول الغلام، ويغسل بول الجارية ". قال قتادة: وهذا ما لم يطعما، فإذا طعما غسلا جميعا.
وقال: هذا حديث حسن. رفع هشام الدستوائي هذا الحديث عن قتادة، وأوقفه سعيد بن أبي عروبة، عن قتادة، ولم يرفعه

التلخيص الحبير: (كتاب الطهارة، باب إزالة النجاسة، 186/1، ط: العلمية)
"ورواه أحمد، وأبو داود، والترمذي، وابن ماجه، وابن خزيمة، وابن حبان، والحاكم من حديث قتادة عن أبي حرب، بن أبي الأسود، عن أبيه، عن علي بن أبي طالب، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال في بول الرضيع: "ينضح بول الغلام ويغسل بول الجارية". قال قتادة هذا ما لم يطعما فإذا طعما غسلا ". لفظ الترمذي ،وقال: حسن، رفعه هشام، ووقفه سعيد. قلت: إسناده صحيح، إلا أنه اختلف في رفعه ووقفه وفي وصله وإرساله، وقد رجح البخاري صحته وكذا الدارقطني".

شرح معاني الآثار: (كتاب الطهارة، ‌‌باب حكم بول الغلام و الجارية قبل أن يأكلا الطعام، رقم الحديث: 598، 93/1، ط: عالم الكتب)
عن عائشة رضي الله عنها قالت: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم ، يؤتى بالصبيان فيدعو لهم ، فأتي بصبي مرة ، فبال عليه ، فقال: "‌صبوا ‌عليه ‌الماء ‌صبا".

المبدع في شرح المقنع لابن المفلح: (212/1، ط: دار الكتب العلمية)
"ومعنى النضح: ‌غمره بالماء، وإن لم يزل عنه، ولا يحتاج إلى مرس وعصر، وهو نجس، صرح به الجمهور".

الاختيار لتعليل المختار: (كتاب الطهارة، باب الأنجاس و تطهيرها، 32/1، ط: دار الكتب العلمية)
"وبول الفأرة، والصغير والصغيرة أكلا أو لا، والمني نجس (ف) يجب غسل رطبه، ويجزئ الفرك في يابسه".
"قال: (و) كذلك (بول الفأرة) وخرؤها لما تقدم، ولإطلاق قوله عليه الصلاة والسلام: «‌استنزهوا ‌من ‌البول» ، والاحتراز عنه ممكن في الماء، غير ممكن في الطعام والثياب فيعفى عنه فيهما.
قال: (و) كذلك بول (الصغير والصغيرة أكلا أو لا) لما روينا من غير فصل، وما روي من نضح بول الصبي إذا لم يأكل، فالنضح يذكر بمعنى الغسل. «قال عليه الصلاة والسلام لما سئل عن المذي: " انضح فرجك بالماء» ، أي اغسله، فيحمل عليه توفيقا".

مستفاد از درس ترمذی: (287/1، ط: مکتبة دار العلوم کراتشي)

و مستفاد از تحفة الألمعي: (313/1، ط: زمزم ببلشرز)

واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی

Print Full Screen Views: 623 Sep 12, 2023
doodh pete larke or larki ka peshab ko pak karne se mutaliq hadis ki tehqiq wa tashreeh

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Interpretation and research of Ahadees

Managed by: Hamariweb.com / Islamuna.com

Copyright © Al-Ikhalsonline 2024.