عنوان: آن لائن ویڈیو کال (online video call) پر نکاح میں دولہا کا دستخط نہ کرنے سے نکاح کا حکم (11036-No)

سوال: اگر کسی کا نکاح آن لائن ویڈیو کال (online video call) پر ہو اور اس وقت لڑکے کی طرف سے sign نہ ہو سکے تو کیا یہ نکاح ہو گیا یا جب تک sign نہیں ہوں گے نکاح مکمل نہیں ہوگا؟
برائے مہربانی جواب جلدی ارسال کر دیجیے گا۔

جواب: واضح رہے کہ نکاح کے صحیح ہونے کے لیے لڑکے اور لڑکی یا ان کے وکیلوں کا شرعی گواہوں (دو عاقل بالغ مسلمان مرد یا ایک مرد اور دو عورتوں) کی موجودگی میں ایک ہی مجلس میں صرف ایجاب و قبول کرنا ضروری ہے، جبکہ آن لائن ویڈیو کال پر نکاح میں ایجاب و قبول آن لائن ہوتا ہے، ایک ہی مجلس میں نہیں ہوتا، لہذا ایک مجلس میں عاقدین یا ان کے وکیلوں کے موجود نہ ہونے کی صورت میں آن لائن ویڈیو کال پر نکاح درست نہیں ہوگا۔
البتہ اگر فریقین (مرد و عورت) میں سے کوئی ایک فریق فون پر کسی کو اپنا وکیل بنادے اور وہ وکیل مجلس نکاح میں شرعی گواہوں کی موجودگی میں دوسرے فریق کے ساتھ اسی مجلس میں ایجاب و قبول کرلے تو ایک ہی مجلس میں ایجاب و قبول کی وجہ سے یہ نکاح صحیح ہوجائے گا۔
لہذا صورتِ مذکورہ میں اگر مندرجہ بالا طریقہ کے مطابق نکاح کیا ہو تو ایسا نکاح منعقد ہوجائے گا اگرچہ لڑکے نے دستخط نہیں کیا ہو، کیونکہ ایجاب و قبول کے بعد دستخط کرنا شرعاً ضروری نہیں ہے، لیکن اگر ایجاب و قبول آن لائن کیا ہو، (جیسا کہ عموماً آن لائن نکاح میں ہوتا ہے) تو ایسا نکاح شرعا معتبر نہیں ہے، اور اس صورت میں دوبارہ نئے سرے سے نکاح کرنا ضروری ہوگا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

الھدایة: (کتاب النکاح، 185/1، ط: دار احياء التراث العربي)
قال: " ولا ينعقد نكاح المسلمين إلا بحضور شاهدين حرين مسلمين بالغين عاقلين أو رجل أو وامرأتين۔

بدائع الصنائع: (فصل ركن النكاح، 231/2، ط: دار الكتب العلمية)
ثم النكاح كما ينعقد بهذه الالفاظ بطريق الاصالة ينعقد بها بطريق النيابة بالوكالة والرسالة؛ لان تصرف الوكيل كتصرف الموكل وكلام الرسول كلام المرسل، والأصل في جواز الوكالة في باب النكاح ما روي أن النجاشي زوج رسول الله صلی الله عليه وسلم أم حبيبة رضي الله عنها فلا يخلو ذلك اما أن فعله بأمر النبي صلى الله عليه وسلم أو لا بأمره، فإن فعله بأمره فهو وكيله، وان فعله بغير امره فقد اجاز النبي صلى الله عليه وسلم عقده والاجازة اللاحقة كالوكالة السابقة.

البحر الرائق: (کتاب النکاح، 94/3، ط: دار الکتاب الاسلامی)
(قوله: عند حرين أو حر وحرتين عاقلين بالغين مسلمين، ولو فاسقين أو محدودين أو أعميين أو ابني العاقدين) متعلق بينعقد بيان للشرط الخاص به، وهو الإشهاد فلم يصح بغير شهود لحديث الترمذي «البغايا اللاتي ينكحن أنفسهن من غير بينة» ولما رواه محمد بن الحسن مرفوعا «لا نكاح إلا بشهود» فكان شرطا ولذا قال في مآل الفتاوى: لو تزوج بغير شهود ثم أخبر الشهود على وجه الخبر لا يجوز إلا أن يجدد عقدا بحضرتهم. اه

واللّٰه تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی

Print Full Screen Views: 899 Sep 13, 2023

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Nikah

Managed by: Hamariweb.com / Islamuna.com

Copyright © Al-Ikhalsonline 2024.