سوال:
کیا اپنے بھائی کو عشر کی رقم دی جا سکتی ہے جو مقروض اور غریب ہے، لیکن اس کی دو ایکڑ زرعی اراضی ہے، جس کا وہ مالک ہے اور دو تین مال مویشی بھی رکھے ہوئے ہیں؟
جواب: صورتِ مذکورہ میں اگر بھائی کا گزر بسر اسی زرعی زمین کی پیداوار اور دو تین موجود مالِ مویشی پر ہو، اور اس اس کے پاس اس کے علاوہ اتنا مال (نقدی، سونا، چاندی، سامان تجارت، یا ضرورت سے زائد سامان ) نہیں ہو کہ جس سے قرضہ نکالنے کے بعد وہ مال نصاب (ساڑھے باؤن تولہ چاندی کی مالیت) کے بقدر بچ جائے تو یہ مستحق عشر ہوگا اور اس کو عشر دینا جائز ہوگا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
الدر المختار مع رد المحتار: (باب المصرف، 339/2، ط: سعید)
مصرف الزکوۃ والعشر ہو فقیر، ومسکین.
وہو مصرف أیضا لصدقۃ الفطر والکفارۃ، والنذر وغیر ذالک من الصدقات الواجبۃ۔
بدائع الصنائع: (50/2، ط: دار الکتب العلمیة)
ويجوز دفع الزكاة إلى من سوى الوالدين والمولودين من الأقارب ومن الإخوة والأخوات وغيرهم؛ لانقطاع منافع الأملاك بينهم
رد المحتار: (348/2، ط: دار الفکر)
وفي التتارخانية عن التهذيب أنه الصحيح وفيها عن الصغرى له دار يسكنها لكن تزيد على حاجته بأن لا يسكن الكل يحل له أخذ الصدقة في الصحيح وفيها سئل محمد عمن له أرض يزرعها أو حانوت يستغلها أو دار غلتها ثلاث آلاف ولا تكفي لنفقته ونفقة عياله سنة؟ يحل له أخذ الزكاة وإن كانت قيمتها تبلغ ألوفا وعليه الفتوى وعندهما لا يحل اه ملخصا.
امداد الفتاویٰ: (60/2، ط: مکتبة دار العلوم)
واللّٰه تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی