سوال:
ایک شخص نے قسم کھائی کہ اگر میں نے فلاں کام کیا تو جب جب میں نکاح کروں میری بیوی کو تین طلاق پھر وہ فعل کر بیٹھا اب اس کا نکاح فضولی کے ذریعے سے ہوگا یہ تو طے ہے، لیکن پوچھنا یہ ہے کہ کیا ایسا شخص اپنے لیے رشتے کا انتخاب کرسکتا ہے کہ والدین سے کہے میں فلاں لڑکی سے شادی چاہتی ہوں یا جب اس کے والدین اس کے لیے رشتہ ڈھونڈ کر پوچھے کیا تجھے پسند ہے؟ تو ایسی صورت میں وہ کیا کرے منہ سے ہاں کردے یا چھپ رہے یا وہی جملہ کہے جو فضولی کے ذریعے نکاح کے بعد مبارکباد دینے پر کہے گا کہ میں ابھی سوچ رہا ہوں
جواب: پوچھی گئی صورت میں جس شخص نے یہ قسم کھائی ہے کہ "اگر میں نے فلاں کام کیا تو جب جب میں نکاح کروں میری بیوی کو تین طلاق" پھر اس سے وہ فعل سرزد ہوگیا تو ایسا شخص رشتے کا انتخاب کرسکتا ہے، اسی طرح جب گھر والے اس سے رشتہ کے پسند ہونے کے بارے میں پوچھیں تو وہ ہاں کرسکتا ہے۔ تاہم اسے چاہیے کہ نکاح سے قبل وہ گھر والوں سے صراحتاً کہہ دے کہ "میرا نکاح کوئی نہ کرائے، میں کسی کو نکاح کی اجازت نہیں دیتا"، تاکہ اجازت اور توکیل کا کوئی شبہ بھی باقی نہ رہے۔
اس کے بعد اگر کوئی شخص اس کا نکاح کرادے تو وہ فضولی کا نکاح سمجھا جائے گا، جس کے بعد یہ شخص زبانی اجازت دیے بغیر مہر وغیرہ بھجوا دے تو اس سے طلاقیں واقع نہ ہوں گی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
الدر المختار مع رد المحتار: (846/3، ط: دار الفكر)
(حلف لا يتزوج فزوجه فضولي فأجاز بالقول حنث وبالفعل) ومنه الكتابة خلافا لابن سماعة (لا) يحنث به يفتى خانية.
وفي رد المحتار تحته: (قوله فأجاز بالقول) كرضيت وقبلت نهر وفي حاوي الزاهدي لو هنأه الناس بنكاح الفضولي فسكت فهو إجازة (قوله حنث) هذا هو المختار كما في التبيين وعليه أكثر المشايخ والفتوى عليه كما في الخانية وبه اندفع ما في جامع الفصولين من أن الأصح عدمه بحر (قوله وبالفعل) كبعث المهر أو بعضه بشرط أن يصل إليها وقيل الوصول ليس بشرط نهر وكتقبيلها بشهوة وجماعها لكن يكره تحريما لقرب نفوذ العقد من المحرم بحر.
قلت: فلو بعث المهر أولا لم يكره التقبيل والجماع لحصول الإجازة قبله (قوله ومنه الكتابة) أي من الفعل ما لو أجاز بالكتابة لما في الجامع حلف لا يكلم فلانا أو لا يقول له شيئا فكتب إليه كتابا لا يحنث، وذكر ابن سماعة أنه يحنث نهر (قوله به يفتى) مقابله ما في جامع الفصولين من أنه لا يحنث بالقول كما مر فكان المناسب ذكره قبل قوله وبالفعل أفاده ط (قوله لاستنادها) أي الإجازة لوقت العقد وفيه لا يحنث بمباشرته ففي الإجازة أولى بحر.
احسن الفتاویٰ: (176/5، ط: سعيد)
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی