عنوان: بچوں کے پرانے یا چھوٹے کپڑے کسی اور بچے کو دینا(11050-No)

سوال: کیا نابالغ بچوں کے پرانے یا چھوٹے کپڑے اپنے رشتہ داروں کو دیے جاسکتے ہیں؟ آیا یہ کپڑے بچوں کی ملکیت ہیں؟ کیا اس کے عوض بچوں کو کوئی معاوضہ دینا ہوگا؟

جواب: نابالغ بچوں کو پہننے کے جو کپڑے دیئے جاتے ہیں، اس کی عام طور پر تین صورتیں ہوتی ہیں:‏
‏1) کپڑے بچوں کو تحفے میں ملے ہوں.
‏2) والدین نے کپڑے لے کر بچوں کو ملکیتاً دیئے ہوں۔
‏3) والدین نے کپڑے لے کر بچوں کو استعمال کے لئے (عاریتاً) دیئے ہوں۔
پہلی دو صورتوں میں چونکہ کپڑے بچے کی ملکیت ہوتے ہیں، اس لئے والدین یا کسی اور کو یہ اختیار نہیں ہے کہ وہ یہ کپڑے کسی اور بچے کو دیں، بلکہ جب تک وہ بچے کے کام آسکیں، انہیں اس کے استعمال میں لے آئیں، لیکن اگر وہ کپڑے چھوٹے ہونے کی وجہ سے یا کسی اور وجہ سے بچے کے لئے قابل استعمال نہ رہیں تو ‏انہیں بیچ کر اس کی رقم بچے کی ضروریات میں صرف کرلیں خواہ اس کے بدلہ بچے کے لئے کوئی دوسرا کپڑا خرید لیں یا ضرورت کی کوئی اور چیز لے لیں۔
اس طریقے سے عوض ادا کرنے کے بعد بچے کے کپڑے کسی اور بچے کو دیئے جاسکتے ہیں۔
تیسری (عاریت کی ) صورت میں کپڑے والدین کی ملکیت ہوتے ہیں، اس لئے اس صورت میں بچے ‏کے کپڑے دیگر بچوں کو دینا جائز ہے۔
‏ لہٰذا احتیاط کا تقاضا یہ ہے کہ والدین اس تیسری صورت پر عمل کرتے ہوئے اگر چھوٹے بچے کے لئے کپڑے وغیرہ خریدیں تو اسے مالک بناکر نہ دیں، بلکہ اپنی ملکیت برقرار رکھتے ہوئے بچے کو عاریتاً (صرف ‏استعمال کی غرض) سے دیدیں، تاکہ آئندہ کسی اور کو دینے اور استعمال کرنے میں کوئی شرعی خرابی لازم نہ ‏آئے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

رد المحتار‎:‎‏ (689/5، ط: دار الفکر)‏
اتخذ لولده الصغير ثوبا يملكه وكذا الكبير بالتسليم بزازية…‏‎..‎اتخذ لولده ‏ثيابا ليس له أن يدفعها إلى غيره إلا إذا بين وقت الاتخاذ أنها عارية‎.‎

تبيين الحقائق و حاشية الشلبي‎:‎‏ (96/5، المطبعة الكبرى الأميرية، بولاق)‏
قال في فتاوى القاضي ظهير الدين ولو اتخذ لولده الصغير ثيابا ، ثم أراد ‏أن يدفع إلى ولد آخر ليس له ذلك إلا أن يبين وقت الاتخاذ أنه عارية له ‏؛ لأن المعتبر في الباب التعارف وفي التعارف يراد بهذا البر والصلة‎.‎

الفتاوى الهندية: (383/4، ط: دار الفکر)‏
‏ ولو أن رجلا اتخذ وليمة للختان فأهدى إليه الناس اختلف المشايخ ‏رحمهم الله تعالى فيها قال بعضهم هي للولد سواء قالوا هي للصغير أو لم ‏يقولوا سلموها إلى الأب أو إلى الابن لأنه هو الذي اتخذ الوليمة للولد ‏وقال بعضهم هي للوالدين وقال بعضهم إذا قالوا للولد فهي له وإن لم ‏يقولوا شيئا فهي للوالد قال الفقيه أبو الليث رحمه الله تعالى إن كانت ‏الهدية مما يصلح للصبي مثل ثياب الصبي أو شيء يستعمل للصبيان فهي ‏للصبي وإن كانت الهدية دراهم أو دنانير أو شيئا من متاع البيت أو ‏الحيوان فإن أهداه أحد من أقرباء الأب أو من معارفه فهي للوالد‎.‎

والله تعالىٰ أعلم بالصواب ‏
دارالافتاء الإخلاص،کراچی

Print Full Screen Views: 542 Sep 14, 2023
bacho k purany ya chote kapre kisi or bacho ko dena

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Divorce

Managed by: Hamariweb.com / Islamuna.com

Copyright © Al-Ikhalsonline 2024.