سوال:
حضرت! میرا سوال ہے کہ میں نے اپنی بیوی پر طلاق معلق کی اور کہا کہ اگر میری اجازت کے بغیر اپنے بہنوئی کے یہاں گئی تو تجھے ساری طلاق ہے، مجھ سے پوچھ کر جانا پڑے گا اور اگر کوئی ایمرجنسی وغیرہ ہو اور مجھے فون نہ ملے تو بلا اجازت جانے کی اجازت ہے، عام دنوں کے اعتبار سے جانے پر طلاق معلق کی تھی۔
پھر وہ میرے ساتھ لڑکے اپنے میکہ گئی ہوئی تھی، مجھے گمان ہوا کہ وہ وہاں پر بھی جا سکتی ہے، کیونکہ بہن کا گھر میکہ کے پاس میں ہی ہے، مجھے مسئلہ کا بالکلیہ علم نہیں تھا، میں نے سوچا کہ اگر اجازت لے کر جائے گی تو دے دوں گا اور اگر طلاق کی نیت سے جائے گی تو ظاہر ہے کہ اجازت تو نہیں لے گی۔ اس لیے میں نے اللہ کو گواہ بنا کر کہا کہ میری بیوی کو میری طرف سے وہاں جانے کی پوری اجازت ہے، مجھے کوئی اعتراض نہیں ہے، اور یہی بات میں نے اپنے ایک دوست کو گواہ بناکر کہی۔
منشاء کے عین مطابق یہی ہوا کہ میری بیوی جان بوجھ کر بلا اجازت اچانک وہاں چلی گئی، مجھے اطلاع بھیج دی کہ طلاق ہو گئی ہے۔ آپ سے مؤدبانہ گزارش ہے کہ میرے مسئلے کا حل فرمائیں کہ میں نے منشاء کے مطابق جو اجازت دی، اس بنا پر تو میری طلاق نہیں ہوئی؟ کیونکہ میں نے اسی لئے گواہ بنایا تھا کہ ان کی نیت خراب تھی اور میں طلاق نہیں چاہتا تھا۔
جواب: واضح رہے کہ مفتى غیب کا علم نہیں جانتا ہے، وہ سوال میں بیان کى گئى صورت کے مطابق ہی جواب دیتا ہے، آپ کے سابقہ سوال میں مذکور تفصیلات کے مطابق جواب دیا گیا تھا، اب آپ کے اس دوسرے سوال میں کچھ الفاظ کا اضافہ ہے، جو پہلے آپ نے ذکر نہیں کیے تھے، وہ یہ ہیں: "اگر کوئى ایمرجنسی وغیرہ ہو اور مجھے فون نہ ملے تو بلا اجازت جانے کی اجازت ہے"، گویا آپ کے ان الفاظ سے اس طلاق معلق میں ایک استثنائى صورت بھى بیان کى گئی تھی۔
لہذا اس کا جواب یہ ہے کہ اگر طلاق کسی شرط کے ساتھ معلق کر کے دی جائے تو شرط پوری ہونے پر طلاق واقع ہو جائے گی اور طلاق کو ایک مرتبہ کسی شرط کے ساتھ معلق کر دینے کے بعد شوہر کو شرط واپس لینے کا اختیار نہیں ہوتا ہے اور وہ طلاق بدستور اس شرط کے ساتھ معلق رہتى ہے، لہذا اگر بعد میں شوہر اس شرط کو ختم بھى کر دے، تب بھى وہ شرط ختم نہیں ہوتى ہے، چنانچہ جب وہ شرط پائى جاتی ہے تو اس پر جتنى طلاقیں معلق ہوتى ہیں، وہ سب واقع ہو جاتى ہیں۔
آپ کی بیان کردہ تفصیل کے مطابق آپ کى بیوى نے اس شرط (آپ کی اجازت کے بغیر اپنى بہن کے گھر چلى گئى) پر عمل کر لیا ہے تو اس پر معلق طلاقیں واقع ہو چکی ہیں۔
ہاں! اگر یہ شرط پورى نہ ہوئى ہوتى، تب آپ اس بارے میں مسئلہ معلوم کرتے تو تین طلاقوں سے بچنے کا طریق موجود تھا، لیکن اب چونکہ اب وہ شرط پائى گئى ہے، اس لیے اس پر معلق طلاقیں واقع ہو چکی ہیں۔
نیز جو آپ نے ایمرجنسى کى صورت کا استثنا کیا تھا، اس کے بارے میں آپ نے کوئى تصریح نہیں کى ہے کہ آیا آپ کى بیوى ایمرجنسى کى صورت میں گئى ہے اور اس نے آپ کو اطلاع دینے کى کوشش کى لیکن آپ سے رابطہ نہیں ہوسکا، بلکہ آپ کا تو بیان یہ ہے: "منشاء کے عین مطابق یہی ہوا میری بیوی جان بوجھ بلا اجازت اچانک وہاں چلی گئ۔۔ ۔۔" اس سے تو یہ واضح ہوتا ہے کہ آپ کى بیوى نے استثنا والى صورت پر عمل نہیں کیا ہے، اگر وہ اس پر عمل کر لیتى، یعنی آپ کو اطلاع دینےکى کوشش کرتى اور رابطہ نہ ہو سکتا، تب بھى اس استثنا کى وجہ سے طلاق واقع نہ ہوتى، لیکن ایسا نہیں کیا گیا۔
بہرحال! طلاق کو معلق کرنے کے بعد اگر اس شرط کو ختم کیا جائے، تب بھى وہ ختم نہیں ہوتى ہے، البتہ اس شرط پر عمل سے پہلے تین طلاق سے بچنے کى صورت نکل سکتى ہے، لیکن اسے بھى اختیار نہیں کیا گیا ہے، لہذا آپ کى تعلیق طلاق (سارى طلاق) کے مطابق شرط کے پائے جانے پر آپ کى بیوى پر تین طلاق واقع ہو چکى ہے اور وہ آپ پر حرمت مغلظہ کے ساتھ حرام ہو چکى ہے، اب آپ دونوں کا میاں بیوى کى طرح رہنا جائزنہیں ہے۔
ہاں! اگر آپ کى بیوى عدت گزار کر کسی اور مرد سے نکاح کرے، اور اس سے ازدواجی تعلقات قائم کرے، پھر وہ اسے طلاق دیدے یا اس کا انتقال ہو جائے، پھر وہ عدت گزار کر آپ سے نکاح کرے تو ایسا کرنا جائز ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
رد المحتار: (3/785، ط: دار الفکر)
"والحاصل: أن الحلف بطلاق ونحوه تعتبر فيه نية الحالف ظالما أو مظلوما إذا لم ينو خلاف الظاهر كما مر عن الخانية، فلا تطلق زوجته لا قضاء ولا ديانة، بل يأثم لو ظالما إثم الغموس، ولو نوى خلاف الظاهر، فكذلك لكن تعتبر نية ديانة فقط، فلا يصدقه القاضي بل يحكم عليه بوقوع الطلاق إلا إذا كان مظلوما على قول الخصاف ويوافقه ما قدمه الشارح أول الطلاق من أنه لو نوى الطلاق عن وثاق دين إن لم يقرنه بعدد ولو مكرها صدق قضاء أيضا. اه".
الدر المختار: (ص: 221، ط: دار الكتب العلمية)
"(وتنحل) اليمين (بعد) وجود (الشرط مطلقا) لكن إن وجد في الملك طلقت وعتق، وإلا لا، فحيلة من علق الثلاث بدخول الدار أن يطلقها واحدة ثم بعد العدة تدخلها فتنحل اليمين فينكحها".
واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی