سوال:
مجھے ایک پریشانی ہے کہ گستاخی کا تعین کیسے ہوگا؟ بات دراصل یہ ہے کہ میں وسوسے کے مرض میں مبتلا تھا، مجھے لگتا تھا کہ یہ وساوس میں خود لارہا ہوں، اسی وجہ سے ایک دن ڈیوٹی پہ کام کر رہا تھا اور ساتھ ہی برابر انتہائی نامناسب خیالات آرہے تھے اور ساتھ میں خوف میں مبتلا خدشات کا شکار تھا کہ اب یوں نہ پیدا ہوجائے اور اب یوں، لیکن میں کام پہ لگ گیا اور جیسے ہی کام شروع کیا تو اس کام کے متعلق اور آقا کریم ﷺ کے متعلق ایک گستاخانہ خیال اپنے دماغ میں منسوب کر دیا۔ جیسے ہی احساس ہوا میں کام چھوڑ کے وہیں پہ رک گیا، پھر مجھے یوں لگا کہ یہ صرف خیال نہیں رہا، بلکہ گستاخانہ عمل ہوگیا ہے۔ اب میرا دماغ ماؤف ہوچکا ہے، مجھے سمجھ نہیں آرہا کہ یہ گستاخانہ عمل ہے یا وسوسہ؟ کیونکہ مجھے کافی وقت سے یہی لگ رہا تھا کہ اب وسوسے میرا دماغ خود لارہا ہے۔ میں یہی کہتا ہوں کہ یہ عمل مجھ سے خود سرزد ہوا، تاکہ ایسا نہ ہو کہ میں اسے خیال تک محدود سمجھوں اور روز آخرت یہ میرے نامہ اعمال میں گستاخی درج ہو اور میرا سب دین ضائع ہوا ہو اور مجھے تب خبر ہو جب میں کچھ کر بھی نہ سکوں۔ ایسی صورت میں اب میرے لیے آسان راستہ کیا ہے؟ کیا میں اس کو گستاخانہ عمل ہی سمجھ کے خود پہ لوں اور توبہ کروں؟ تاکہ اگر ایسا ہی ہے تو میری نجات کا امکان ہوسکے؟ کیا میری توبہ بھی قبول ہو سکتی ہے؟ میرا ایک اور سوال بھی ہے کہ اگر کوئی گستاخ توبہ کرے اور اپنی اصلاح کرے اور اس پہ حد قتل نہ لگے تو کیا اس کی توبہ اللہ قبول فرماتا ہے یا نہیں؟
جواب: غیر اختیاری خیالات پر کوئی پوچھ گچھ نہیں ہے، برے وسوے شیطان کی طرف سے ڈالے جاتے ہیں، ایسے خیالات کو دل میں بُرا سمجھنا ہی مضبوط ایمان کی علامت ہے، ایک حدیث مبارکہ میں ہے: حضرت ابو ہریرہؓ سے مروی ہے کہ کچھ صحابہ حضورﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے، انہوں نے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول! بعض اوقات ہمیں ایسے خیالات آتے ہیں کہ ان کو زبان پر لانا بھی ہمارے لیے بڑا بھاری معاملہ ہے، ہمیں یہ بھی گوارا نہیں کہ ہمیں اتنا اتنا مال ملے اور وہ ہم اپنی زبانوں پر لائیں، تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "کیا واقعی تم یہ کیفیت محسوس كرتے ہو؟" انہوں نے کہا: جی ہاں! تو آپﷺ نے فرمایا: "یہ تو صریح ایمان ہے۔" (أبو داود: حديث نمبر: 5111)
اس حدیثِ مبارکہ سے معلوم ہوا کہ بُرے خیالات کا آنا نہ تو گستاخی ہے، اور نہ اس پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی پوچھ گچھ ہے، بلکہ ایسے خیالات کی وجہ سے طبیعت میں جو ناگواری ہوتی ہے، اس پر بھی ثواب ملتا ہے، اپنے آپ کو مثبت کاموں میں مشغول رکھنا بھی ان خیالات سے نجات کا طریقہ ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
سنن أبي داود: (رقم الحديث: 5111، ط: دار الرسالة العالمية)
حدثنا أحمد بن يونس، حدثنا زهير، حدثنا سهيل، عن أبيه عن أبي هريرة، قال: جاءه أناس من أصحابه، فقالوا: يا رسول الله، نجد في أنفسنا الشيء نعظم أن نتكلم به -أو الكلام به- ما نحب أن لنا وأنا تكلمنا به، قال: "أو قد وجدتموه؟ " قالوا: نعم، قال: "ذاك صريح الإيمان".
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی