سوال:
مفتی صاحب! درج ذیل دو مسائل کے بارے میں رہنمائی چاہیے:
۱) جب ہم قبرستان جاتے ہیں تو کچھ قبریں چھوٹی ہوتی ہیں اور کچھ بڑی یعنی کوئی زمین سے ایک فٹ اونچی ہوتی ہے اور کوئی تین سے چار فٹ، ان پر ماربل بھی لگے ہوتے ہیں تو اس حدیث کی روشنی میں ان پر کیا حد جاری ہوتی ہے ؟
۲) دوسرا سوال یہ ہے کہ اگر کوئی شخص فوت ہو گیا ہو اور اس نے قبر اونچی بنانے اور پختہ کرنے کی وصیت نہ کی ہو،لیکن اس کی اولاد ماربل لگوا کر قبر کو پکا اور اونچا بنادیتی ہے تو اس مرنے والے کو اس کا کیا نقصان ہوگا؟
جواب: 1) واضح رہے کہ جس جگہ میت کا جسد خاکى ہے، اس کى سیدھ میں اوپر کے حصے کو پختہ کرنا (خواہ وہ پکى اینٹ سے ہو یا ماربل وغیرہ سے ہو) شرعاً ممنوع ہے، لہذا قبر کے اس حصہ کو بالکل کچا رکھا جائے۔ نیز قبر کو زمین سے ایک بالشت تک کوہان نما اونچا کرنا چاہیے، اس سے اونچا کرنا مکروہ ہے۔
2) قبر کو بے حرمتی اور بوسیدہ ہونے سے محفوظ رکھنے کے لیے اس کے درمیانی حصے کو چھوڑ کر قبر کے چاروں اطرف میں پختہ منڈیر بنانا جائز ہے، لیکن اس منڈیر کو پختہ کرنے کے لیے پتھر یا سیمنٹ وغیرہ کا استعمال کیا جائے، چونکہ ٹائل یا ماربل لگانے میں تزیین وآرائش کا پہلو غالب ہے، اس لیے ایسی چیزوں سے اجتناب کرنا چاہیے۔
3) جس شخص نے خود پختہ قبر بنانے کا نہ کہا ہو اور اس کی وفات کے بعد کسی اور نے اس کی قبر کو پختہ بنا دیا ہو تو اس کا گناہ قبر والے شخص کو نہیں ملے گا، بلکہ اس شخص کو ملے گا جس نے اس ممنوع کام کا ارتکاب کیا ہوگا۔
ہاں! اگر فوت ہونے والا شخص اپنی قبر کو پختہ بنوانے کا پورا "عزم" رکھتا تھا، لیکن اپنے اس عزم کی تعمیل کے لیے اسے وصیت کرنے کا موقع نہیں ملا تو ایسی صورت میں اس کا اس گناہ کا "عزم و ارادہ" بھی قابل مؤاخذہ ہوگا، اگرچہ یہ مؤاخذہ عملی طور پر کیے جانے والے گناہ کے مؤاخذے سے کم درجے کا ہوگا، لہذا اگرچہ اس نے کسی کو وصیت نہیں کی تھی، تب بھی اس گناہ کے عزم پر آخرت میں اس سے مؤاخذہ ہوگا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
القرآن الكريم: (فاطر، الآية: 18)
وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَىٰ ... الخ
صحيح مسلم: (رقم الحديث: 970، ط: دار إحياء التراث العربي)
عن جابر، قال: نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم أن يجصص القبر. وأن يقعد عليه. وأن يبنى عليه.
حاشية الطحطاوي على مراقي الفلاح: (ص: 611، ط: دار الكتب العلمية)
" قوله: "ولا يجصص" به قالت الثلاثة، لقول جابر نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم عن تجصيص القبور وأن يكتب عليها وأن يبنى عليها رواه مسلم وأبو د اود والترمذي وصححه ۔۔۔ قوله: "ويكره البناء عليه" ظاهر إطلاقه الكراهة أنها تحريمية قال في غريب الخطابي نهى عن تقصيص القبور وتكليلها انتهى التقصيص التجصيص والتكليل بناء الكاسل وهي القباب والصوامع التي تبنى على القبر ۔۔۔ وقد اعتاد أهل مصر وضع الأحجار حفظا للقبور عن الإندارس والنبش ولا بأس به".
النهر الفائق: (403/1، ط: دار الكتب العلمية)
"ویکره الآجر في اللحد إذا کان یلي المیت، أما فیما وراء ذلك لا بأس به".
الفتاوى الهندية: (كتاب الصلاة، الباب الحادي والعشرون في الجنائز،الفصل السادس في القبر والدفن والنقل من مكان إلى آخر، ط: دار الفكر)
"ويسنم القبر قدر الشبر ولا يربع ولا يجصص ولا بأس برش الماء عليه ويكره أن يبنى على القبر أو يقعد أو ينام عليه أو يوطأ عليه أو تقضى حاجة الإنسان من بول أو غائط أو يعلم بعلامة من كتابة ونحوه، كذا في التبيين. وإذا خربت القبور فلا بأس بتطيينها، كذا في التتارخانية، وهو الأصح وعليه الفتوى، كذا في جواهر الأخلاطي".
فيض الباري على صحيح البخاري: (25/4، ط: دار الكتب العلمية)
"ثم نلقي عليك شيئا لتفصيل المسألة، وهو أن مرائب القصد خمس، ضبطها بعضهم في هذين البيتين:
مراتب القصد خمس: هاجس ذكروا
فخاطر، فحديث النفس، فاستمعا
يليه هم، فعزم، كلها رفعت
سوى الأخير، ففيه الأخذ قد وقعا
فالخاطر اسم لما يخطر ببالك، ولا يكون له استقرار في الباطن، فان استقر شيئا يقال له: الهاجس، وإن استقر ولم يخرج، ولكن لم يترجح أحد جانبي الفعل، أو الترك عندك، يقال له: حديث النفس، فإن ترجح، وترددت فيه النفس، فهم؛ وإن أجمعت عليه، فعزم. ثم إن الثلاثة الأول عفو في طرفي الطاعة والمعصية، فلا ثواب عليها، ولا عقاب، أما الهم فهو عفو في جانب المعصية، ومعتبر في جهة الطاعة. بقي العزم، فإنه معتبر في الجهتين؛ ومن ظن أنه عفو لهذا الحديث فقد غلط. لا أقول: إن العزم على المعصية، كالعمل بها يعينه، بل هو دونه؛ فثواب العزم على الطاعة أدون من ثواب العمل بالطاعة، وكذا عقاب العزم على المعصية، أخف من العمل بالمعصية. ثم العزم إن بلغ إلى حد العمل حتى عمل بموجبه، فإن كان على الطاعة تكتب له عشر حسنات، وإن كان على المعصية لا تكتب له إلا سيئة، وإن لم يبلغ إلى حد العمل، فإن كان على الطاعة تكتب له طاعة واحدة، وإن كان على المعصية تكتب له معصية العزم لا غير، فإن كف عنها خوفا من ربه تمحى عنه معصية العزم، وتكتب حسنة مكانها، كما يعلم مما أخرجه مسلم عن أبي هريرة مرفوعا: قال الله تعالى: {إذا تحدث عبدي بأن يعمل حسنة فأنا أكتبها له حسنة ما لم يعمل فإذا عملها فأنا أكتبها بعشرة أمثالها إلى أن قال في السيئة وإن تركها فاكتبوها له حسنة إنما تركها من جرائي".
واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی