سوال:
کیا فرشتوں اور انبیائے کرام علیہم السلام کے علاوہ بھی کوئی معصوم ہے؟ نیز اللہ تعالی نے قرآن کریم میں کن لوگوں کو معصوم کہا ہے کہ جن سے غلط فیصلہ یا گناہ صادر نہیں ہوسکتا؟
جواب: اہلِ سنت والجماعت کا اجماعی عقیدہ ہے کہ حضرات انبیائے کرام علیہم السلام اور فرشتے معصوم ہیں اور ان کے علاوہ کوئی بھی معصوم نہیں ہے اور یہ عقیدہ ضروریاتِ دین میں سے ہے۔
شاہ اسماعیل شہید رحمہ اللہ "عصمت" کی تعریف لکھتے ہیں:عصمت کامعنیٰ یہ ہے کہ انبیاء کرام کے اقوال وافعال، عبادات وعادات، معاملات ومقامات اوراخلاق واحوال میں حق تعالیٰ اپنی قدرت کاملہ کی بدولت اُن کومداخلتِ نفس وشیطان اورخطاونسیان سے محفوظ رکھتا ہے اورمحافظ ملائکہ کو ان پر متعین کردیتا ہے تاکہ بشریت کا غُبار اُن کے پاک دامن کو آلودہ نہ کردے اورنفس بہیمیہ اپنے بعض امور اُن پر مسلّط نہ کردے اور اگر قانونِ رضائے الٰہی کے خلاف اُن سے شاذ ونادر کوئی امرواقع ہو بھی جائے تو فی الفور حافظِ حقیقی(اللہ تعالیٰ)اس سے انہیں آگاہ کردیتا ہے اور جس طرح بھی ہوسکے غیبی عصمت ان کوراہِ راست کی طرف کھینچ لاتی ہے‘‘۔(منصب امامت:66)
مفتی محمد شفیع رحمۃ اللہ علیہ اپنی تفسیر ”معارف القرآن“ میں فرماتے ہیں:
’’تحقیق یہ ہے کہ انبیاء علیہم السلام کی عصمت تمام گناہوں سے عقلاً اور نقلاً ثابت ہے۔ ائمہ اربعہ اور جمہور امت کا اس پر اتفاق ہے کہ انبیاء علیہم السلام تمام چھوٹے بڑے گناہوں سے محفوظ ہوتے ہیں اور بعض لوگوں نے جو یہ کہا ہے کہ صغیرہ گناہ ان سے بھی سرزد ہو سکتے ہیں‘ جمہور امت کے نزدیک صحیح نہیں۔ ‘‘(معارف القرآن: ج1ص195)
انبیائے کرام علیہم السلام اور فرشتوں کی عصمت کئ آیات مبارکہ سے ثابت ہے۔ذیل میں اس حوالے سے چند آیات ذکر کی جاتی ہیں:
عصمت انبیائے کرام علیہم السلام پردلائل:
۱۔’’قَالَ فَبِعِزَّتِكَ لَأُغْوِيَنَّهُمْ أَجْمَعِينَ ،إِلَّا عِبَادَكَ مِنْهُمُ الْمُخْلَصِينَ‘‘ (سورۂ ص:۸۲۔۸۳)’’شیطان کہنے لگا : بس تو میں تیری عزت کی قسم کھاتا ہوں کہ میں ان سب کو بہکاؤں گا۔ سوائے تیرے برگزیدہ بندوں کے‘‘۔
اس آیت میں شیطان کے قول کو نقل کیا گیا ہے کہ وہ سوائے مخلص بندوں کے تمام لوگوں کو بہکائے گا، لہٰذا اگرانبیائے کرام سے کوئی چھوٹے سے چھوٹا گناہ سرزد ہوا تو گویا وہ شیطان کے بہکاوے میں آگئےاور جب شیطان انبیاء کو بہکاسکتا ہےتو پھر وہ مخلص بندوں میں نہ رہیں گے، حالا نکہ اللہ تعالیٰ نے انبیائے کرام کو اپنے برگزیدہ اور مخلصین بندوں میں سے شمارکیاہے اور ان کے مرتبہ ٴاخلاص کی اپنی طرف سے تائید فرما ئی ہے۔
حضرت یوسف علیہ السلام کے بارے میں فرمایا: ’’إِنَّهُ مِنْ عِبَادِنَا الْمُخْلَصِينَ ‘‘بلاشبہ یوسف ہمارے برگزیدہ بندوں میں سے ہے‘‘۔
حضرت موسی علیہ السلام کے متعلق فرمایا:’’ إِنَّهُ كَانَ مُخْلَصًا وَكَانَ رَسُولًا نَبِيًّا ‘‘(سورۂ مریم:۵۱)’’بےشک وہ اللہ کے چنے ہوئے بندے تھے، اور رسول اور نبی تھے۔ ‘‘اور حضرت ابراہیم، اسحٰق اور یعقوب علیہم السلام کے بارے میں ارشادفرمایا:’’إِنَّا أَخْلَصْنَاهُمْ بِخَالِصَةٍ ذِكْرَى الدَّارِ (46) وَإِنَّهُمْ عِنْدَنَا لَمِنَ الْمُصْطَفَيْنَ الْأَخْيَارِ ‘‘(سورۂ ص:۴۶۔۴۷)’’ ہم نے انہیں ایک خاص وصف کے لیے چن لیا تھا، جو ( آخرت کے) حقیقی گھر کی یاد تھی اور حقیقت یہ ہے کہ ہمارے نزدیک وہ چنے ہوئے بہترین لوگوں میں سے تھے‘‘۔
لہذا ثابت ہوا کہ انبیاء علیہم السلام ’’مخلصین‘‘ہیں اور’’مخلصین‘‘ ان لوگوں کو کہا جاتا ہے جنہیں اللہ تعالیٰ اپنی اطاعت کے لیے خاص کر لیتا ہے اور انہیں ہر چیز سے معصوم کردیتا ہے جو اطاعتِ خداوندی کے خلاف ہے، لہٰذا اس بات سے ثابت ہوتا ہے کہ انبیائے کرام سے کسی گناہ و معصیت کا صادر ہونا ممکن نہیں ہے، لہذا وہ معصوم ہیں۔
۲۔وَاصْبِرْ لِحُكْمِ رَبِّكَ فَإِنَّكَ بِأَعْيُنِنَا(سورۂ طور:۴۸)’’ اور آپ اپنے رب کی (اس) تجویز پر صبر سے بیٹھے رہئیے کہ آپ ہماری حفاظت میں ہیں‘‘۔
اب جوشخص اللہ تعالی کی حفاظت و نگرانی میں ہو وہ گنہگار نہیں ہوسکتا ہے، لہذا جب وہ گنہگارنہیں ہوسکتا تو وہ معصوم ہی ہوگا۔
۳۔’’يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللہ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ‘‘(سورۂ النساء:۵۹)’’ اے ایمان والو ! اللہ کی اطاعت کرو اور اس کے رسول کی بھی اطاعت کرو ‘‘۔
وَمَا أَرْسَلْنَا مِنْ رَسُولٍ إِلَّا لِيُطَاعَ بِإِذْنِ اللہ‘‘(سورۂ النساء:۶۴)’’اور ہم نے کوئی رسول اس کے سوا کسی اور مقصد کے لیے نہیں بھیجا کہ اللہ کے حکم سے اس کی اطاعت کی جائے‘‘۔
’’مَنْ يُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطَاعَ اللہ‘‘(سورۂ النساء:۸۰)’’ جو رسول کی اطاعت کرے، اس نے اللہ کی اطاعت کی‘‘
ان آیات میں رسول کی اطاعت کا حکم دیا گیا ہے اور اسے عین اللہ کی اطاعت قرار دیا گیا ہے اور یہ اس وقت ممکن ہے کہ جس کی اطاعت کا حکم دیا گیا ہے، وہ معصوم ہو، کیونکہ گنہگار اور غیر معصوم کی اطاعت عین اللہ کی اطاعت نہیں ہو سکتی۔
فرشتوں کے معصوم ہونے پر دلائل:
’’ يَخَافُونَ رَبَّهُمْ مِنْ فَوْقِهِمْ وَيَفْعَلُونَ مَا يُؤْمَرُونَ‘‘(سورۂ النحل:۵۰)’’ وہ اپنے اس پروردگار سے ڈرتے ہیں جو ان کے اوپر ہے اور وہی کام کرتےرہے ہیں جس کا انہیں حکم دیا جاتا ہے‘‘۔
علامہ ابن عادل ’’اللباب فی علوم الکتاب‘‘میں لکھتے ہیں کہ یہ آیت اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ فرشتے تمام گناہوں سے پاک ہیں، کیونکہ اللہ تعالی کا یہ فرمان ’’ وَهُمْ لاَ يَسْتَكْبِرُونَ‘‘’’اور وہ تکبر نہیں کرتے‘‘ اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ وہ اپنے خالق کے مطیع و فرمانبردار ہیں، اور یہ کہ وہ کسی معاملے میں اس سے اختلاف نہیں کرتے تھے، جیسا کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے: ’’ وَمَا نَتَنَزَّلُ إِلاَّ بِأَمْرِ رَبِّكَ ‘‘(سورۂ مریم :۶۴)’’اور (فرشتے تم سے یہ کہتے ہیں کہ) ہم آپ کے رب کے حکم کے بغیر اتر کر نہیں آتے۔ ‘‘ اور اللہ تعالی کا یہ فرمان’’ لاَ يَسْبِقُونَهُ بالقول وَهُمْ بِأَمْرِهِ يَعْمَلُونَ‘‘(سورۂ الأنبياء: ۲۷)’’ وہ اس سے آگے بڑھ کر کوئی بات نہیں کرتے، اور وہ اسی کے حکم پر عمل کرتے ہیں‘‘۔’’وَيَفْعَلُونَ مَا يُؤْمَرُونَ‘‘(التحریم: ۶) ’’ اور وہی کرتے ہیں جس کا انہیں حکم دیا جاتا ہے‘‘۔
اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ انہوں نے ہر وہ کام کیا جس کا انہیں حکم دیا گیا تھا، لہذا یہ فرشتوں کے تمام گناہوں سے بری ہونے پر دلیل ہے۔
خلاصہ کلام:
حضرات انبیائے کرام علیہم السلام اور فرشتے معصوم ہیں اور یہ "عصمت" ان کی ایسی مخصوص صفت ہے کہ کوئی فرد بشر ان کی اس صفت میں ان کے ساتھ شریک نہیں، لہذا حضرات انبیائے کرام علیہم السلام اور فرشتوں کے علاوہ کوئی بھی معصوم نہیں ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
عصمة الأنبياء للإمام الرازي: (ص: 39، 40، ط: مكتبة الثقافة الدنيية)
واجتمعت الأمة على أن الأنبياء معصومون عن الكفر والبدعة إلا الفضيلية من الخوارج فإنهم يجوزون الكفر على الأنبياء عليهم الصلاة والسلام، وذلك لأن عندهم يجوز صدور الذنوب عنهم وكل ذنب فهو كفر عندهم، فبهذا الطريق جوزوا صدور الكفر عنهم، والروافض فإنهم يجوزون عليهم إظهار كلمة الكفر على سبيل التقية [الثاني] ما يتعلق بجميع الشرائع والأحكام من الله تعالى، وأجمعوا على أنه لا يجوز عليهم التحريف والخيانة في هذا الباب لا بالعمد ولا بالسهو، وإلا لم يبق الاعتماد على شئ من الشرائع۔۔۔ والذي نقول: إن الأنبياء عليهم الصلاة والسلام معصومون في زمان النبوة عن الكبائر والصغائر بالعمد. أما على سبيل السهو فهو جائز. ويدل على وجوب العصمة وجوه خمسة عشرة۔۔۔الخ.
الشفاء للقاضي عياض: (ص: 667، ط: جائزة دبي)
فأجمع المسلمون على عصمة الأنبياء من الفواحش والكبائر الموبقات. ومستند الجمهور في ذلك الاجماع الذي ذكرناه. وهو مذهب القاضي أبي بكر؛ ومنعها غيره بدليل العقل مع الإجماع؛ وهوقول الكافة، واختاره الأستاذ أبوإسحاق. وكذلك لا خلاف أنهم معصومون من كتمان الرسالة والتقصير في التبليغ؛لأن كل ذلك تقتضي العصمة منه المعجزة، مع الإجماع على ذلك من الكافة.والجمهور قائلون: بانهم معصومون من ذلك من قبل الله، معتصمون باختيارهم وكسبهم، إلا حسينا النجار ؛ فانه قالى: لا قدرة لهم على المعاصي أصلا.
شرح الشفاء للملاعلي القاري: (313/2، ط: دار الكتب العلمية)
(قد استبان لك ايها الناظر!)۔۔۔( بما قررناه، ما هو الحق من عصمته – عليه السلام) وكذا عصمة سائر الأنبياء عليهم السلام (عن الجهل بالله تعالى) أي بذاته (وصفاته) وأفعاله ومصنوعاته(وكونه على حالة تنافي العلم بشيء من ذلك كله جملة) إجمالا لا تفصيلا إذ يحيط به أحد علما وهذه العصمة ثابتة له (بعد النّبوة عقلا وإجماعا وقبلها سماعا ونقلا)۔۔۔ لمراد بالسماع ما ثبت بالسنة وبالنقل ما نقل عن الأئمة.
النبراس: (ص: 607، ط: مكتبة ياسين)
المذكور في كلام الشارح هو مذهب عامة المتكلمين، وخالفهم جمهور جمع من العلماء، فذهبوا إلى العصمة عن الصغائر والكبائر قبل الوحي ،وبعده، وهو مختار أبي المنتهى شارح «الفقه الأكبر» والشيخ عبد الحق المحدث الدهلوي، وقال بعض المشايخ: زلات الأنبياء بسبب زيادة قربهم إلى الله سبحانه، وفي تفسير النسفي»: إن أئمة «سمرقند» لا يطلقون اسم الزلة على أفعال الأنبياء؛ لأنها نوع ذنب، ويقولون: فعل الفاضل وترك الأفضل؛ فعوتبوا عليه؛ لأن ترك الأفضل منهم كترك الواجب من الغير، وقال الشيخ أبو منصور الماتريدي: «الأنبياء أحق بالعصمة من الملائكة؛ لأن الأمم مأمورون باتباع الأنبياء؛ لا الملائكة». واختار القاضي عياض عصمتهم بعد الوحي عن كل صغيرة وكبيرة، ونسبه إلى طائفة من المحققين، وقال: قد اختلف في عصمتهم قبل النبوة، والصحيح إن شاء الله تعالى: تنزيههم من كل عيب، انتهى كلام القاضي.
و فیه أيضاً: (ص: 613)
والملائكة۔۔۔«عباد الله تعالى العاملون بأمره } يريد أنهم ،معصومون وقد اختلف في عصمتهم: فالمختار أنهم معصومون عن كل معصية وقال بعض العلماء العصمة خاصة بالمرسلين.
اللباب في علوم الكتاب: (73/12، ط: دار الكتب العلمية)
دلت الآية على عصمة الملائكة عن جميع الذنوب؛ لأن قوله {وَهُمْ لاَ يَسْتَكْبِرُونَ} يدلُّ على أنهم منقادون لخالقهم، وأنهم ما خالفوه في أمرٍ من الأمور، كقوله {وَمَا نَتَنَزَّلُ إِلاَّ بِأَمْرِ رَبِّكَ} [مريم: 64] ، وقوله: {لاَ يَسْبِقُونَهُ بالقول وَهُمْ بِأَمْرِهِ يَعْمَلُونَ} [الأنبياء: 27] ، وكذلك قوله - جل وعز -: {وَيَفْعَلُونَ مَا يُؤْمَرُونَ} [التحريم: 6] وذلك يدل على أنهم فعلوا كلَّ ما أمروا به، فدل على عصمتهم عن كل الذنوب.
ارشاد الفحول للشوكاني: (98/1، ط: دار الكتب العربي)
ذهب الأكثر من أهل العلم إلى عصمة الأنبياء بعد النبوة من الكبائر، وقد حكى القاضي أبو بكر إجماع المسلمين على ذلك. وكذا حكاه ابن الحاجب وغيره من متأخري الأصوليين، وكذا حكوا الإجماع على عصمتهم بعد النبوة مما يزري بمناصبهم، كرذائل الأخلاق والدناءات وسائر ما ينفر عنهم، وهي التي يقال لها صغائر الخسة، كسرقة لقمة، والتطفيف بحبة.
منصب امامت للشاه اسماعيل الشهید: (ص: 66، ط: حاجي حنيف اينڈ سنز)
معارف القرآن لشفیع العثمانی: (195/1، ط: مکتبة معارف القرآن)
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی