سوال:
سنا ہے کہ حرام کو حلال سمجھ کر کرنا بھی شرک ہے تو آج کل بہت سے ایسے غلط کام ہو رہے ہیں جسے برا نہ سمجھ کر کھلے عام کیا جاتا ہے، جبکہ کبھی کبھی تو فخر سے کیا جاتا ہے، مثلاً: غیبت کرنے کو برا سمجھا ہی نہیں جاتا یا لڑکے لڑکیاں اپنے آپس کے relationship کو برا نہیں سمجھتے اور بھی ایسے بہت سی برائیاں ہیں جسے غلط نہیں سمجھا جاتا تو کیا یہ سب بھی شرک میں داخل ہوگا؟ اور ایک شخص بالکل اپنی آخرت سے غافل ہو کر گناہ کرتا جاتا ہے تو کیا یہ مانا جائے گا کہ اسے آخرت کا یقین نہیں اور کیا وہ مشرک کہلائے گا؟
جواب: واضح رہے کہ کسی پر کفر کا حکم لگانا ایک انتہائی سنگین اور حساس معاملہ ہے، جس میں حد درجہ احتیاط کرنا لازم ہے، چنانچہ علماء کرام نے لکھا ہے کہ اگر کہیں ننانوے اسباب اور وجوہات کفر کی ہوں اور ایک وجہ ایمان کی ہو تو اس ایک وجہ کو اختیار کرکے کفر کا حکم لگانے سے احتراز کیا جائے گا۔
یہ بھی واضح رہے کہ صرف وہ گناہ موجبِ کفر ہے، جس کی حرمت قطعی اور یقینی دلیل سے ثابت ہو اور اس کے حلال ہونے کا عقیدہ رکھتے ہوئے اس کا ارتکاب کیا جائے، لہٰذا جہاں یہ دونوں شرطیں نہ ہوں یا ان میں سے کوئی ایک نہ ہو یعنی اس گناہ کی حرمت دلیل قطعی سے ثابت نہ ہو یا اس کی حرمت دلیل قطعی سے ثابت تو ہو، لیکن کرنے والا اس کے حلال ہونے کا عقیدہ نہ رکھتا ہو تو ایسے گناہ کے ارتکاب پر کفر کا حکم نہیں لگایا جائے گا۔
پوچھی گئی صورت میں جن گناہوں کی حرمت دلیل قطعی سے ثابت ہے، جیسے: غیبت یا لڑکے اور لڑکیوں کے آپس کے ناجائز تعلقات وغیرہ، تو جب تک ان کے ارتکاب کرنے والے افراد کے عقائد کے بارے میں حتمی اور یقینی طور پر معلوم نہ ہو، اس وقت تک ان کی طرف کفر کی نسبت کرنا ہرگز جائز نہیں ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
رد المحتار: (224/4، ط: دار الفكر)
وفي الفتاوى الصغرى: الكفر شيء عظيم فلا أجعل المؤمن كافرا متى وجدت رواية أنه لا يكفر اه وفي الخلاصة وغيرها: إذا كان في المسألة وجوه توجب التكفير ووجه واحد يمنعه فعلى المفتي أن يميل إلى الوجه الذي يمنع التكفير تحسينا للظن بالمسلم زاد في البزازية إلا إذا صرح بإرادة موجب الكفر فلا ينفعه التأويل ح وفي التتارخانية: لا يكفر بالمحتمل، لأن الكفر نهاية في العقوبة فيستدعي نهاية في الجناية ومع الاحتمال لا نهاية اه والذي تحرر أنه لا يفتى بكفر مسلم أمكن حمل كلامه على محمل حسن أو كان في كفره اختلاف ولو رواية ضعيفة فعلى هذا فأكثر ألفاظ التكفير المذكورة لا يفتى بالتكفير فيها ولقد ألزمت نفسي أن لا أفتي بشيء منها اه كلام البحر باختصار.
بريقة محمودية في شرح طريقة محمدية وشريعة نبوية: (68/2، ط: مطبعة الحلبي)
إذا اعتقده حلالا ، وهو حرام إن حراما لغيره كمال الغير لا يكفر باعتقاد الحل ، وإن لعينه فإن بدليل قطعي يكفر ، وإن بالآحاد لا وعن تاج الدين الكبير هذا التفصيل للعالم أما في حق الجاهل فإن ثبت بقطعي كفر مطلقا لعل هذا مرجع ما في تبيين المحارم اعتقاد الحلال الثابت بقطعي حرمته واعتقاد الحرام الثابت بقطعي حله كفر عند بعض وعند آخر في الحرام لغيره لا واستحلال المعصية كبيرة أو صغيرة أو بقطعي يكفر كاستهانتها وتخفيفها ومن استخف بالمسجد أو بنحوه مما يعظم في الشرع كفر.
شرح المقاصد في علم الكلام: (270/2، ط: دار المعارف النعمانية)
وأما استحلال المعصية بمعنى اعتقاد حلها فكفر صغيرة كانت أو كبيرة وكذا الاستهانة بها بمعنى عدها هينة ترتكب من غير مبالاة وتجري مجرى المباحات ولا خفاء في أن المراد ما يثبت بقطعي.
والله تعالىٰ أعلم بالصواب
دارالافتاء الإخلاص،کراچی