عنوان: اجنبیہ عورت کو طلاق دینے کا حکم(11081-No)

سوال: میرے شوہر اپنی خالہ کی بیٹی سے بہت زیادہ پیار کرتے ہیں، ان سے شادی کرنا چاہتے ہیں، میں ایک دن اس بات پر اپنے شوہر کے سامنے بہت روئی تو انہوں نے تین مرتبہ کہا کہ میں سیمہ کو طلاق دیتا ہوں، حالانکہ نکاح نہیں ہوا تھا، اب اگر وہ ان سے نکاح کریں گے تو کیا یہ نکاح ہوجائے گا؟

جواب: واضح رہے کہ شرعاً طلاق واقع ہونے کے لیے ضروری ہے کہ جس عورت کو طلاق دی جارہی ہو، وہ طلاق دینے والے کے نکاح میں موجود ہو، اگر وہ عورت اس کے نکاح میں موجود نہ ہو تو ایسی عورت کو دی گئی طلاق واقع نہیں ہوتی۔
پوچھی گئی صورت میں مذکورہ عورت (سیما) طلاق دیتے وقت چونکہ آپ کے شوہر کے نکاح میں نہیں تھی، اس لیے اس کو دی گئیں طلاقیں واقع نہیں ہوئی ہیں، لہذا اگر آپ کے شوہر اب اس کے ساتھ شرعی اصولوں کے مطابق نکاح کرتے ہیں تو ان کا نکاح منعقد (درست) ہوجائے گا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

سنن الترمذي: (رقم الحديث: 1181، 472/2، ط: دار الغرب الإسلامي)
عن ‌عمرو بن شعيب ، عن ‌أبيه ، عن ‌جده قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «لا نذر لابن آدم فيما لا يملك»، ولا عتق له فيما لا يملك، ولا طلاق له فيما لا يملك.
وفي الباب عن علي، ومعاذ بن جبل، وجابر، وابن عباس، وعائشة.
حديث عبد الله بن عمرو حديث حسن صحيح، وهو أحسن شيء روي في هذا الباب.

الدر المختار: (227/3، ط: سعيد)
(هو) لغة رفع القيد لكن جعلوه في المرأة طلاقا وفي غيرها إطلاقا، فلذا كان أنت مطلقة بالسكون كناية وشرعا (رفع قيد النكاح في الحال) بالبائن (أو المآل) بالرجعي (بلفظ مخصوص) هو ما اشتمل على الطلاق

البحر الرائق: (9/4، ط: دار الكتاب الإسلامي)
قوله فلو قال لأجنبية إن زرت فأنت طالق فنكحها فزارت لم تطلق) لأنه حين صدر لا يصح جعله إيقاعا لعدم المحل

واللّٰه تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی

Print Full Screen Views: 323 Sep 19, 2023
ajnabi aurat ko talaq dene ka hukum

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Divorce

Managed by: Hamariweb.com / Islamuna.com

Copyright © Al-Ikhalsonline 2024.