عنوان: بیوی کی ملازمت اور اس کی کمائی کا حکم (11110-No)

سوال: مفتی صاحب! مندرجہ ذیل سوالات کے جوابات مطلوب ہیں:
۱) کیا شوہر کی کمائی پر بیوی کا حق ہے؟ کیا بیوی شوہر سے اس کی کمائی کے بارے میں پوچھ گچھ کرسکتی ہے؟
۲) کیا بیوی کی کمائی پر شوہر کا حق ہے؟ کیا شوہر بیوی سے اس کی کمائی کے بارے میں پوچھ گچھ کرسکتا ہے؟
۳) اگر شوہر کسی موقع پر بیوی سے اس کی آمدنی (ماہانہ تنخواہ) کے بارے میں پوچھ لے کہ کتنی آمدنی ہے اور کہاں کہاں خرچ ہوئی یا ہورہی ہےتو کیا شوہر کے لیے ایسا کرنا غلط ہے؟
۴) اگر شوہر بیوی کو ماہانہ جیب خرچ سمیت اس کے علاوہ بھی نقد رقم دیتا ہے تو شوہر کا ان رقوم کے بارے میں پوچھ لینا کہ کہاں خرچ ہوئی، کیا غلط بات ہے؟
۵) اگر شوہر بیوی کی تمام ضروریات پوری کرنے کی استطاعت رکھتا ہے اور پوری بھی کر رہا ہےتو کیا اس صورت میں بیوی کو نوکری کرنے کی گنجائش ہے؟ اور اگر بیوی پھر بھی نوکری کررہی ہے تو شوہر کو اس کی آمدنی، خرچ اور بینک اکاؤنٹ کے بارے میں پوچھنے کا حق ہے یا نہیں؟

جواب: شریعت مطہرہ نے عورت پر کسب معاش کی ذمہ داری نہیں ڈالی ہے، بلکہ شوہر کو مکلّف بنایا ہے کہ وہ اپنی بیوی کے نان و نفقہ (کھانے، پینے، رہائش اور لباس وغیرہ) کا انتظام کرے، لہذا اگر کسی عورت کو معاشی تنگی کا سامنا نہ ہو تو محض معیارِ زندگی بلند کرنے کے لیے یا شوقیہ ملازمت کے لئے اس کا گھر سے باہر نکلنا شریعت کی نظر میں پسندیدہ عمل نہیں ہے، خاص طور پر جب کہ شوہر کی اجازت بھی نہ ہو، لیکن اگر عورت کو معاشی تنگی کا سامنا ہو اور شوہر اس کی ذمہ داری اٹھانے سے قاصر ہو تو ایسی مجبوری اور ضرورت کے وقت درج ذیل شرائط کے ساتھ ملازمت کے لیے گھر سے باہر نکلنے کی گنجائش ہوگی:
1) ملازمت کا کام فی نفسہ جائز ہو، ایسا کام نہ ہو جو شرعاً ناجائز یا گناہ ہو۔
2)شرعی پردہ کی مکمل رعایت ہو۔
3)لباس پرکشش اور ایسا نہ ہو جس سے جسم کا کوئی حصہ نمایاں ہوتا ہو۔
4) عورت بناؤ سنگھار، زیب و زینت اور خوشبو لگا کر نہ نکلے۔
5) ملازمت کرنے کی وجہ سے گھریلو امور میں لاپروائی نہ ہو، جس سے شوہر اور بچوں کے حقوق ضائع ہوں۔
اس تفصیل کے بعد عورت کی کمائی کا حکم یہ ہے کہ عورت جو کچھ کمائے گی، وہ اس کی ملکیت شمار ہوگی، شوہر کا اس میں کوئی حق نہیں ہوگا، عورت اپنی مرضی سے ان پیسوں کو جس جائز مصرف میں چاہے خرچ کرسکتی ہے، شوہر کو ان پیسوں کا حساب مانگنے اور ان کے بارے میں غیر ضروری سوالات کرنے کا حق نہیں ہے، یہی حکم شوہر کی کمائی کا ہے، البتہ شوہر کی کمائی میں بیوی بچوں کا نان نفقہ ان کا حق ہے، جو شوہر پر ادا کرنا لازم ہے۔
اسی طرح جو پیسے شوہر بیوی کو اس کی ذاتی خرچ کے لئے ملکیتاً دیدیتا ہے، وہ بھی بیوی کی ملکیت شمار ہوں گے، البتہ جو رقم شوہر بیوی کو گھر کا عمومی خرچہ چلانے کے لیے توکیلاً دیتا ہے، یعنی بیوی کو ان پیسوں کا مالک نہیں بناتا ہے تو ان پیسوں کا حساب مانگنا شوہر کا حق ہے۔
یاد رہے کہ شریعت نے کچھ چیزیں میاں بیوی پر لازم نہیں کی ہیں، لیکن اخلاقی طور پر اگر میاں بیوی ایک دوسرے کا ادب واحترام کریں گے اور بطورِ رفیق حیات آپس کے خرچ اور ہر معاملہ میں تبادلہ خیال اور مشورہ کرکے چلیں گے تو دونوں کے دلوں میں ایک دوسرے کے لیے عزت اور احترام بڑھے گا، اور ازدواجی زندگی میں مزید استحکام پیدا ہوگا جو ذہنی سکون، دنیوی راحت اور اللہ کی رضا کا باعث بنے گا۔
لہٰذا میاں بیوی کو چاہیے کہ ایک دوسرے کے ساتھ احسان سے پیش آئیں، ایک دوسرے کی لغزشوں ںسے درگزر کریں اور ایک دوسرے کی دل جوئی کا سامان کریں، تاکہ ان کی گھریلو زندگی ہمیشہ خوش گوار رہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

القرآن الکریم: ‏(الطلاق، الآیة: 7)‏
لِيُنْفِقْ ذُو سَعَةٍ مِنْ سَعَتِهِ وَمَنْ قُدِرَ عَلَيْهِ رِزْقُهُ فَلْيُنْفِقْ مِمَّا آتَاهُ اللَّهُ لَا يُكَلِّفُ اللَّهُ ‏نَفْسًا إِلَّا مَا آتَاهَا سَيَجْعَلُ اللَّهُ بَعْدَ عُسْرٍ يُسْرًا o

و قوله تعالی: (النساء، الایة: 34)
الرِّجَالُ قَوَّامُونَ عَلَى النِّسَاءِ بِمَا فَضَّلَ اللَّهُ بَعْضَهُمْ عَلَىٰ بَعْضٍ وَبِمَا أَنفَقُوا مِنْ أَمْوَالِهِمْ ... الخ

سنن أبي داود: (رقم الحدیث: 2144، ط: دار الرسالة العالمیة)‏
عن سعيد بن حكيم، عن أبيه عن جده معاوية القشيري قال: أتيت رسول الله - صلى الله عليه وسلم - قال: فقلت: ما تقول في نسائنا؟ قال: "أطعموهن مما تأكلون، واكسوهن مما يكتسون، ولا تضربوهن، ولا تقبحوهن"

موسوعة الفقه الاسلامي: (143/4، ط: بیت الأفکار الدولیة)
لا يجوز للمرأة أن تخرج من البيت ولو للمسجد إلا بإذن زوجها. قال الله تعالى: "وقرن في بيوتكن ولا تبرجن تبرج الجاهلية الأولى وأقمن الصلاة وآتين الزكاة وأطعن الله ورسوله إنما يريد الله ليذهب عنكم الرجس أهل البيت ويطهركم تطهيرا" (الأحزاب:33)

الدر المختار: (572/3، ط: دار الفكر)‏
وشرعا ( هي الطعام والكسوة والسكنى ) وعرفا هي الطعام ( ونفقة الغير تجب ‏على الغير بأسباب ثلاثة زوجية وقرابة وملك).

و فیه ایضاً: (690/5، ط: دار الفکر)
وتتم الهبة بالقبض الكامل۔

شرح المجلة: (654/1، ط: مکتبة حبیبیة)
كل یتصرف فی ملكه كیف شاء۔

رد المحتار: (603/3، ط: سعید)
والذی ینبغی تحریرہ، ان یکون له منعھا عن کل عمل یؤدی الی تنقیص حقه، او ضررہ، او الی خروجها عن بیته،

و فیه ایضاً: (600/3، ط: سعید)
"في التتارخانية أن للزوج منعها عما يوجب خللا في حقه."

واللّٰه تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی

Print Full Screen Views: 708 Sep 27, 2023
biwi ki mulazmat or us ki kamai ka hukum

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Nikah

Managed by: Hamariweb.com / Islamuna.com

Copyright © Al-Ikhalsonline 2024.