عنوان: قرآن و سنت کی روشنی میں مقتدی کا امام کے پیچھے قراءت نہ کرنا(1112-No)

سوال: السلام علیکم، مفتی صاحب! امید ہے خیریت سے ہوں گے، ایک دوست نے پریشان کر دیا ہے کہ تم لوگ فرض نمازوں میں امام کے پیچھے چونکہ خاموش رہتے ہو، لہذا تمہاری نماز نامکمل ہے، اس لیے پوچھنا یہ ہے کہ جماعت کی نماز میں ہميں امام صاحب کے پیچھے قراءت کرنی چاہیے یا نہیں؟ تفصیل سے جواب دیجیے، عین نوازش ہوگی۔

جواب: واضح رہے کہ احناف کے نزدیک مقتدی کے لیے امام کے پیچھے قراءت کرنا مکروہ تحریمی ہے، خواہ جہری نماز ہو یا سری نماز ۔ اس موقف پر قرآن و سنت میں واضح دلائل موجود ہیں، چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:"وَاِذَا قُرِئ الْقُرْاٰنُ فَاسْتَمِعُوْا لَہُ وَاَنْصِتُوْا لَعَلَّکُم تُرْحَمُوْنَ (سورۃ الاعراف: الایة:204) ترجمہ : اور جب قرآن پڑھاجائے تو اس کو کان لگا کرسنو، اور خاموش رہو، تاکہ تم پر رحمت ہو۔
اس آیت مبارکہ سے واضح طور پر معلوم ہوا کہ جب قرآن پاک پڑھا جائے تو اسے خاموش ہو کر سنا جائے اور سورہ فاتحہ کا قرآن کا حصہ ہونا ثابت شدہ امر ہے، لہذا جب امام سورہ فاتحہ یا قرآن کریم کے کسی دوسرے حصہ سے تلاوت کررہا ہو تو مقتدی پر اس دوران خاموش کھڑے ہوکر سننا واجب ہے۔
اس استدلال پر یہ اعتراض وارد کرنا درست نہیں ہے کہ یہ آیت خطبہ جمعہ کے بارےمیں نازل ہوئی ہے، نہ کہ نماز کےبارے میں، کیونکہ حضرت عبداللہ ابن عباسؓ کے خاص شاگرد حضرت مجاہدؒ سے منقول ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں بعض حضرات صحابہ کرامؓ امام کے پیچھے قراءت کیا کرتے تھے، جس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ (کتاب القراءة للبیہقی: ص87، ادارة احیاء السنة)
قرآن پاک کی آیت کے علاوہ بہت ساری احادیثِ مبارکہ بھی احناف کا مستدل ہیں، جن میں سےذیل میں چند احادیث ذکر کی جاتی ہیں:
(۱)قال النبی صلی اللہ علیہ وسلم: إذا صليتم، فاقيموا صفوفكم، ثم ليؤمكم احدكم، فإذا كبر فكبروا، وإذ قال: غير المغضوب عليهم ولا الضالين، فقولوا: آمين… وعن قتادة وإذا قرأ فأنصتوا" .(صحیح مسلم، رقم الحدیث:404)
ترجمہ: نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے، جب تم نماز کے لیے کھڑے ہو تو اپنی صفوں کو درست کرلو، پھر تم میں سے کوئی امامت کرے ،جب امام تکبیر کہے تو تم بھی تکبیر کہو اور جب وہ “غیر المغضوب علیہم ولا الضّالین”کہے تو تم آمین کہو اور قتادہ سے یہ زیادتی بھی مروی ہے کہ آپﷺ نے فرمایا:جب (امام )قراءت کرے تو تم خاموش رہو ۔
اس حدیث مبارکہ میں صراحت کے ساتھ امام کی قراءت کرتے وقت خاموش رہنے کا حکم ہے اور یہ حکم مطلق ہونے کی وجہ سے سورہ فاتحہ اور دوسری تمام سورتوں کی قراءت کو شامل ہے۔
(‍۲)عن ابي هريرة، ان رسول الله صلی اللہ علیہ وسلّم انصرف من صلاة جهر فيها بالقراءة، فقال: " هل قرا معي احد منكم آنفا؟ " فقال رجل: نعم يا رسول الله، قال: " إني اقول مالي انازع القرآن "، قال: فانتهى الناس عن القراءة مع رسول الله صلی اللہ علیہ وسلّم فيما جهر فيه رسول الله صلی اللہ علیہ وسلّم من الصلوات بالقراءة حين سمعوا ذلك من رسول الله صلی اللہ علیہ وسلّم. (سنن الترمذی، رقم الحدیث:312)
ترجمہ: حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے اس نماز سے فارغ ہونے کے بعد جس میں آپ نے بلند آواز سے قرأت کی تھی تو فرمایا:“ کیا تم میں سے ابھی کسی نے میرے ساتھ قرأت کی ہے؟” ایک شخص نے عرض کیا: جی ہاں اللہ کے رسول! (میں نے کی ہے) آپ نے فرمایا: “تبھی تو میں یہ کہہ رہا تھا: آخر کیا بات ہے کہ قرآن کی قراءت میں میری آواز سے آواز ٹکرائی جا رہی ہے اور مجھ پر غالب ہونے کی کوشش کی جاری ہے۔” وہ (زہری) کہتے ہیں: تو جب لوگوں نے رسول اللہ ﷺ سے یہ بات سنی تو لوگ رسول اللہ ﷺ کے پیچھے ان نمازوں میں قراءت کرنے سے رک گئے جن میں آپ ﷺ بلند آواز سے قراءت کرتے تھے۔
اس حدیث مبارکہ میں آپ ﷺ نے صحابہ کرامؓ کو امام کے پیچھے قراءت کرنے سے منع فرمایا اور امام کے پیچھے قراءت کرنےکو منازعت القرآن (یعنی قرآن سے جھگڑنا) قرار دیا ہے۔
(۳)عن جابر ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" من كان له إمام، فإن قراءة الإمام له قراءة". (سنن ابن ماجه، رقم الحدیث:850)
حضرت جابرؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: “جس کے لیے امام ہو تو امام کی قراءت اس کی قراءت ہے۔”
یہ حدیث مبارکہ احناف کے موقف پر بالکل صریح حدیث ہے، جس میں ایک قاعدہ کلیہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ امام کی قراءت مقتدی کے لیے کافی ہوجاتی ہے اور چونکہ اس روایت میں سری اور جہری، سورہ فاتحہ اور غیر فاتحہ کا فرق بھی نہیں کیا گیا ہے، لہذا اس روایت کی روشنی میں احناف نے تمام نمازوں میں امام کے پیچھے خاموش رہنے اور قراءت نہ کرنے کاموقف اختیار کیا ہے۔
اس بارے میں مزید تفصیل کے لیے حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم العالیہ کی درس ترمذی جلد دوم کی طرف مراجعت فرمائیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

القرآن الکریم: (الأعراف، الایة: 204)
وَاِذَا قُرِئ الْقُرْاٰنُ فَاسْتَمِعُوْا لَہُ وَاَنْصِتُوْا لَعَلَّکُم تُرْحَمُوْنَo

صحیح مسلم: (رقم الحدیث: 404، ط: دار احیاء التراث العربي)
قال النّبي صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم :" إذا صلیتم فأقیموا صفوفکم ، ثم لیوٴمکم أحدکم فإذا کبر فکبروا، فإذا قال:غیر المغضوب علیہم ولا الضالین ،فقولوا: آمین… وعن قتادة وإذا قرأ فأنصتوا" .

سنن الترمذی: (رقم الحدیث:312، ط: دارالغرب الاسلامی)
عن ابي هريرة، ان رسول الله ﷺ انصرف من صلاة جهر فيها بالقراءة، فقال: " هل قرا معي احد منكم آنفا؟ " فقال رجل: نعم يا رسول الله، قال: " إني اقول مالي انازع القرآن "، قال: فانتهى الناس عن القراءة مع رسول الله ﷺ فيما جهر فيه رسول الله ﷺ من الصلوات بالقراءة حين سمعوا ذلك من رسول الله ﷺ.

سنن ابن ماجه: (رقم الحدیث:850، ط: دارالجیل)
عن جابر، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" من كان له إمام، فإن قراءة الإمام له قراءة".

واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی

Print Full Screen Views: 6906 Mar 21, 2019
Muqtadi ka imam kae pheechay qirat na kirnay kae dalayel Ahadees ki roshni main, Evidence that the follower did not recite behind the Imam in the light of the hadiths

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Salath (Prayer)

Managed by: Hamariweb.com / Islamuna.com

Copyright © Al-Ikhalsonline 2024.