عنوان: دعوت و تبلیغ کا حکم(11132-No)

سوال: مفتی صاحب! مجھے معلوم کرنا ہے کہ تبلیغی حضرات اکثر کہتے ہیں کہ تبلیغ فرض ہے۔ کیا اُن کی یہ بات صحیح ہے؟

جواب: واضح رہے کہ تبلیغ دین یعنی دین کی دعوت دوسرے لوگوں تک پہنچانا فرض کفایہ ہے، اگر امت کے کچھ افراد اس فریضہ کی ادائیگی کرتے رہیں تو باقی تمام لوگوں سے یہ فرض ساقط ہوجائے گا، لیکن اگر ساری امت دین کی دعوت اور تبلیغ کرنا چھوڑ دے تو ساری امت گناہ گار ہوگی، تاہم اس فریضہ کی ادائیگی کے سلسلے میں مختلف زمانہ اور حالات کے مطابق کوئی بھی جائز طریقہ اختیار کیا جاسکتا ہے۔
جہاں تک مروجہ طریقہ کے مطابق معروف تبلیغی جماعت کے ساتھ منسلک ہو کر خاص ترتیب (شب جمعہ، سہ روزہ، چلہ اور سال وغیرہ لگانا) کے مطابق کام کرنے کا تعلق ہے تو اس کا حکم یہ ہے کہ اس ترتیب کے مطابق دعوت و تبلیغ کا کام کرنا نہ فرض ہے، نہ واجب نہ سنت، البتہ چونکہ مروجہ طریقہ کار ( سہ روزہ، چلہ یا سال وغیرہ لگانے) کا مقصد لوگوں کو دین سکھانا، رفتہ رفتہ دین سے ان کا تعلق پیدا کرنا اور مزید تعلق بڑھانا، انہیں دین پر چلنے کا عادی بنانا اور دوسروں تک دین کی دعوت پہنچانے کا اسلوب سکھانا ہے، اور تحربہ اور مشاہدہ یہ ہے کہ یہ طریقہ کار اس مقصد کے حصول کیلئے بہت مفید ہے، لہذا معروف طریقے کے مطابق دعوت و تبلیغ کرنا بلاشبہ جائز اور درست ہے، البتہ اس ترتیب کو فرض و واجب یا سنت قرار دینا درست نہیں ہے، نیز اس مخصوص ترتیب کے علاوہ کسی اور طریقے سے دین کی دعوت و تبلیغ کا کام کرنے والوں کو ملامت اور طعن و تشنیع کا نشانہ بنانا بھی شرعا درست نہیں ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

القرآن الکریم: (آل عمران، الایة: 104)
وَلْتَكُن مِّنكُمْ أُمَّةٌ يَدْعُونَ إِلَى الْخَيْرِ وَيَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ ۚ وَأُولَٰئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ o

أحكام القرآن للجصاص: (باب فرض الأمر بالمعروف والنهي عن المنكر، 2/38، ط: دار الكتب العلمية بیروت)
قال الله تعالى: ولتكن منكم أمة يدعون إلى الخير ويأمرون بالمعروف وينهون عن المنكر قال أبوبكر قد حوت هذه الآية معنيين أحدهما وجوب الأمر بالمعروف والنهي عن المنكر والآخر أنه فرض على الكفاية ليس بفرض على كل أحد في نفسه إذا قام به غيره لقوله تعالى ولتكن منكم أمة وحقيقته تقتضي البعض دون البعض فدل على أنه فرض على الكفاية إذا قام به بعضهم سقط عن الباقين ومن الناس من يقول هو فرض على كل أحد في نفسه ويجعل مخرج الكلام مخرج الخصوص في قوله ولتكن منكم أمة مجازا كقوله تعالى ليغفر لكم من ذنوبكم ومعناه ذنوبكم والذي يدل على صحة هذا القول أنه إذا قام به بعضهم سقط عن الباقين كالجهاد وغسل الموتى وتكفينهم والصلاة عليهم ودفنهم ولو لا أنه فرض على الكفاية لما سقط عن الآخرين بقيام بعضهم به

واللہ تعالیٰ أعلم بالصواب
دار الافتاء الاخلاص،کراچی

Print Full Screen Views: 694 Oct 03, 2023
dawat wa tabligh ka hukum

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Beliefs

Managed by: Hamariweb.com / Islamuna.com

Copyright © Al-Ikhalsonline 2024.