عنوان: گاڑی کے ڈرائیور کا شہر سے سامان لانے کی صورت میں کمیشن لینا (11137-No)

سوال: السلام علیکم! مفتی صاحب! ہمارے گاؤں میں ایک گاڑی ڈرائیور روزانہ کے بنیاد پر شہر جاتا ہے، شہر میں مختلف دکانداروں سے اس کا اچھا تعلق اور کاروباری لین دین بڑے پیمانے پر ہے، اس لیے دکاندار گاڑی ڈرائیور کو سامان رعایت کے ساتھ دیتے ہیں، مثلاً: عام لوگوں کو ایک چیز سو روپے میں فروخت کرتے ہیں تو اس گاڑی ڈرائیور کو وہی چیزاسی روپے میں دے دیتے ہیں، معلوم یہ کرنا ہے کہ گاڑی ڈرائیور کے لیے دونوں جانب (دکاندار اور گاؤں سے سامان منگوانے والے بندہ) سے کمیشن لینا شرعاً کیسا ہے؟
مذکورہ بالا مثال میں بیس روپے دکاندار نے رعایت دی، وہ گاڑی ڈرائیور نے جیب میں رکھ لی اور گاؤں کے جس بندے نے سامان منگوایا تھا، اس سے بھی کمیشن کے طور پر دس روپے وصول کیے، یہ طریقہ شرعاً جائز ہے؟ اگر جائز نہیں ہے تو گاڑی ڈرائیور کے لیے متبادل جائز طریقہ کار کیا ہے؟

جواب: پوچھی گئی میں اگر گاڑی ڈرائیور اپنے طور پر پہلے دکانداروں سے سامان خرید کر پھر آگے گاؤں کے دکانداروں کو فروخت کرتا ہے تو ایسی صورت میں 80 روپے کی چیز خرید کر 110 روپے میں فروخت کرنا شرعاً درست ہے، ایسی صورت میں راستے میں سامان کے نقصان وغیرہ کی ذمہ داری ڈرائیور کی ہی ہوگی۔
لیکن اگر گاؤں کے لوگ ڈرائیور کو شہر سے سامان کی خریداری کے لیے اپنا وکیل/ایجنٹ بنالیتے ہیں تو ایسی صورت میں ڈرائیور صرف ان لوگوں سے طے شدہ کمیشن لے سکتا ہے، جنہوں نے اس کو اپنا وکیل بنایا ہو، شہر کے دکانداروں سے قیمت میں ملنے والی رعایت خفیہ طور پر اپنے پاس رکھنا شرعاً درست نہیں ہوگا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

بدائع الصنائع: (203/4، ط: دار الکتب العلمیة)
الاجرۃ فی الاجارات کالثمن فی البیاعات.

الفقه الاسلامی و ادلته: (2997/4، ط: دار الفکر)
تصح الوكالة بأجر، وبغير أجر، لأن النبي صلّى الله عليه وسلم كان يبعث عماله لقبض الصدقات، ويجعل لهم عمولة. فإذا تمت الوكالة بأجر، لزم العقد، ويكون للوكيل حكم الأجير.

مجلة الاحکام العدلیة: (88/1، ط: نور محمد)
(المادة 464) بدل الإجارة يكون معلوما بتعيين مقداره إن كان نقدا كثمن المبيع.

الدر المختار مع رد المحتار: (560/4، ط: سعيد)
وأما الدلال فإن باع العين بنفسه بإذن ربها فأجرته على البائع وإن سعى بينهما وباع المالك بنفسه يعتبر العرف وتمامه في شرح الوهبانية.
(قوله: فأجرته على البائع) وليس له أخذ شيء من المشتري؛ لأنه هو العاقد حقيقة شرح الوهبانية وظاهره أنه لا يعتبر العرف هنا؛ لأنه لا وجه له. (قوله: يعتبر العرف) فتجب الدلالة على البائع أو المشتري أو عليهما بحسب العرف جامع الفصولين

واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی

Print Full Screen Views: 100 Oct 03, 2023
gaari car k driver ka sheher se saman lane lanay ki sorat mein Commission lena

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Employee & Employment

Managed by: Hamariweb.com / Islamuna.com

Copyright © Al-Ikhalsonline 2024.