سوال:
ہماری موبائل مارکیٹ میں دکاندار کسی دوسری دکان والے کا موبائل یا کوئی اور چیز فروخت کرکے اس کے پیسے کسٹمر سے لینے کے باوجود جس دکاندار کا موبائل یا چیز ہوتی ہے، اس کو پیسے نہیں دیتے ہیں اور طرح طرح کے جھوٹ بول کر وقت گزارتے ہیں اور اس پیسوں سے کوئی اور موبائل یا چیز خرید کر بیچتے ہیں یا اپنا بجلی کا بل یا کہیں خرچ کردیتے ہیں، اس عمل کو مارکیٹ کی زبان میں "رول گول" کہتے ہیں۔ معلوم یہ کرنا ہے کہ مارکیٹ والوں کا یہ عمل جائز ہے یا نہیں؟
جواب: واضح رہے کہ کسی دوسرے دکاندار سے کوئی چیز لیکر اپنے گاہک کو بیچنے کی مختلف صورتیں ہوسکتی ہیں، ہر ایک کا حکم مختلف ہے۔ چنانچہ اگر دکاندار سے یہ طے ہوا ہو یا مارکیٹ کا عرف ہو کہ اپنا کمیشن/مارجن رکھ اس کی چیز آگے بیچ دی جائے گی تو ایسی صورت میں متعین کمیشن رکھ کر بقیہ رقم متعلقہ دکاندار کو واپس کرنا شرعاً ضروری ہے، اور اگر کمشین کے بغیر بیچنے کا معاملہ طے ہوا ہو (یا معروف ہو) تو پھر پوری رقم واپس کرنا شرعاً ضروری ہے، اپنے گاہک کو موبائل بیچنے کے بعد متعلقہ دکاندار کی اجازت کے بغیر اس کی رقم کو روکے رکھنا اور جھوٹ، غلط بیانی کرکے ٹال مٹول سے کام لینا دوہرا گناہ ہے، حدیث مبارکہ میں وسعت کے باوجود کسی کے حق کی ادائیگی میں ٹال مٹول کرنے کو ظلم قرار دیا گیا ہے، ایک اور حدیث کے مطابق ظلم کا انجام قیامت کے دن اندھیروں کی صورت میں ہوگا، اس لئے اس طرزِ عمل سے مکمل اجتناب لازم ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
القرآن الکریم: (البقرة، الایة: 188)
وَلَا تَأْكُلُوا أَمْوَالَكُمْ بَيْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ ... الخ
تفسیر القرطبی: (338/2، ط: دار الکتب المصریة)
والمعنی: لایاکل بعضکم مال بعض بغیر حق فیدخل فی ھذا القمارُ و الخداع و الغصوب و جحد الحقوق و ما لا تطیب به نفس مالکه، أو حرمته الشریعة.
صحیح البخاری: (کتاب الاستقراض، باب مطل الغني ظلم، رقم الحدیث: 2400، ط: دار طوق النجاة)
عَنْ هَمَّامِ بْنِ مُنَبِّهٍ أَخِي وَهْبِ بْنِ مُنَبِّهٍ ، أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، يَقُولُ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : مَطْلُ الْغَنِيِّ ظُلْمٌ
صحیح مسلم: (رقم الحدیث: 2578)
اتقوا الظلم فان الظلم ظلمات یوم القیامة
الدر المختار: (10/6، ط: دار الفکر)
(و) اعلم أن (الأجر لا يلزم بالعقد فلا يجب تسليمه) به (بل بتعجيله أو شرطه في الإجارة) المنجزة ... الخ
رد المحتار: (47/6، ط: دار الفکر)
قال في البزازية: إجارة السمسار والمنادي والحمامي والصكاك وما لا يقدر فيه الوقت ولا العمل تجوز لما كان للناس به حاجة ويطيب الأجر المأخوذ
واللہ تعالیٰ أعلم بالصواب
دار الافتاء الاخلاص،کراچی