سوال:
ایک بندہ باہر ملک میں ہے، اپنی بیوی سے بات کررہا تھا تو بیوی سے اس کا جگھڑا ہوگیا اور اس نے کہا کہ میرا آپ سے سب کچھ ختم ، دو تین مرتبہ ایسا کہا، تو بیوی نے کہا سوچ لیں، تو خاوند نے کہا کہ سوچ لیا ہے اور کہا کہ آپ کا جو مہر ہے وہ آپ کو مل جائے گا، میرے گھر کی طرف سے اور اپنے گھر والوں کو بھی کال کرتا ہے اور کہتا ہے کہ ابھی تک اس عورت کو گھر سے نہیں نکالا ہے اور ابو کو بھی فون کیا کہ اسے گھر سے نکالیں اور بچے روک لیں۔ سوال یہ ہےکہ کیا اس صورت میں تین طلاقیں واقع ہوگئی ہیں؟
جواب: پوچھی گئی صورت میں چونکہ شوہر نے یہ الفاظ ’’میرا آپ سے سب کچھ ختم‘‘ لڑائی کے دوران طلاق دینے کی نیت سے کہے ہیں، لہذا ان الفاظ سے ایک طلاق بائن واقع ہوگئی ہے اور نکاح ختم ہوچکا ہے، چونکہ نکاح کے ختم ہونے کے بعد بیوی طلاق کا محل نہیں رہی، اس لیے بعد میں جو شوہر نے کئی مرتبہ الفاظ استعمال کیے، ان سے مزید کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی۔
البتہ اگر دونوں اپنی رضامندی سے دوبارہ نکاح کرنا چاہیں تو عدت کے اندر اور عدت کے بعد گواہوں کی موجودگی میں نئے مہر کے ساتھ دوبارہ نکاح کرسکتے ہیں، اور دوبارہ نکاح کرنے کی صورت میں شوہر کے پاس آئندہ دو طلاقوں کا اختیار باقی رہے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
الهندية: (376/1، ط: دار الفكر)
ولو قال لم يبق بيني وبينك شيء ونوى به الطلاق لا يقع وفي الفتاوى لم يبق بيني وبينك عمل ونوى يقع كذا في العتابية.
الدر المختار: (307/3، 308، ط: سعيد)
"( الصريح يلحق الصريح و ) يلحق ( البائن ) بشرط العدة ( والبائن يلحق الصريح ) الصريح ما لايحتاج إلى نية بائناً كان الواقع به أو رجعياً ··· فتح ( لا ) يلحق البائن ( البائن)".
و فیه أیضاً: (528/4، ط: دار الفكر)
الكنايات (لا تطلق بها) قضاء (إلا بنية أو دلالة الحال).
بدائع الصنائع :(102/3، ط: دار الكتب العلمية)
وحال الغضب ومذاكرة الطلاق دليل إرادة الطلاق ظاهرا فلا يصدق في الصرف عن الظاهر.
الھدایة: (257/2، ط: دار احیاء التراث العربی)
"وإذا كان الطلاق بائنا دون الثلاث فله أن يتزوجها في العدة وبعد انقضائها " لأن حل المحلية باق لأن زواله معلق بالطلقة الثالثة فينعدم قبله".
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی