سوال:
میرا سوال یہ ہے کہ اگر کوئی شادی شدہ شخص کسی لڑکی سے فون پر رات رات بھر میسج اور باتیں کرتا ہو، پھر اس سے شادی کرلے اور اللّٰہ سے اپنے ان گناہوں کی معافی مانگ لے تو وہ معاف کر دیا جائے گا؟ کیا یہ بیوی کے حقوق میں کمی نہیں ہے اور اس میں بیوی کی معافی کی ضرورت ہے یا نہیں؟ کیونکہ اس نے بیوی کا وقت اس خاتون کو دیا ہے؟
جواب: واضح رہے کہ اجنبی عورت سے رات بھر گپ شپ لگانا ناجائز اور حرام فعل ہے، جس پر اللہ تعالی کے حضور ندامت کے ساتھ سچے دل سے توبہ و استغفار کرنا ضروری ہے، لہذا اگر اس فعل پر سچے دل سے توبہ و استغفار کرلیا جائے تو امید ہے کہ یہ گناہ معاف ہوجائے گا۔ نیز نامحرم عورت سے رات بھر باتیں کرنے کی وجہ سے اگر بیوی کی دل آزاری ہوئی ہو یا اس کی کسی قسم کی حق تلفی ہوئی ہو تو اس سے بھی معافی مانگی جائے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
بدائع الصنائع: (334/2، ط: دار الكتب العلمية)
ومنها المعاشرة بالمعروف، وأنه مندوب إليه، ومستحب قال الله تعالى: ﴿وعاشروهن بالمعروف﴾ [النساء: ١٩] قيل: هي المعاشرة بالفضل والإحسان قولا وفعلا وخلقا، قال النبي: ﷺ «خيركم خيركم لأهله، وأنا خيركم لأهلي» ، وقيل: المعاشرة بالمعروف هي أن يعاملها بما لو فعل بك مثل ذلك لم تنكره، بل تعرفه، وتقبله وترضى به، وكذلك من جانبها هي مندوبة إلى المعاشرة الجميلة مع زوجها بالإحسان باللسان، واللطف في الكلام، والقول المعروف الذي يطيب به نفس الزوج، وقيل في قوله تعالى: ﴿ولهن مثل الذي عليهن بالمعروف﴾ [البقرة: ٢٢٨] أن الذي عليهن من حيث الفضل والإحسان هو أن يحسن إلى أزواجهن بالبر باللسان، والقول بالمعروف، والله ﷿ أعلم.
الفقه الاسلامی و ادلته: (6508/9)
تحريم الخلوة بالمخطوبة :بينا أن الخطبة ليست زواجاً، وإنما هي مجرد وعد بالزواج، فلا يترتب عليها شيء من أحكام الزواج، ولا الخلوة بالمرأة أو معاشرتها بانفراد لأنها ما تزال أجنبيةعن الخاطب۔۔وأما المعاشرة قبل الزواج والذهاب معاً إلى الأماكن العامة وغيرها،فهو كله ممنوع شرعاً۔
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی