سوال:
کہا جاتا ہے کہ کھانا کھانے کے بعد ہاتھ دسترخوان اور پلیٹ میں نہیں جھاڑنے چاہیے، کیونکہ اس سے رزق اٹھ جاتا ہے، کیا یہ بات درست ہے؟
جواب: واضح رہے کہ کھانا کھانے کے بعد وہیں بیٹھے بیٹھے دسترخوان پر ہاتھ جھاڑنے یا ہاتھ دھونے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔
اس عمل سے بے برکتی آنا یا رزق کا اٹھ جانا، یہ لوگوں کی بنائی ہوئی (من گھڑت) باتیں ہیں، بلکہ اس کے برعکس حدیث میں آتا ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ایک موقع پر کھانا تناول فرمانے کے بعد وہیں پانی منگوایا اور ہاتھ (انگلیوں کے کنارے جو گوشت کی چکناہٹ سے متاثر ہوئے تھے) دھوکر کلی فرمائی، پھر کھڑے ہو کر نماز پڑھانے تشریف لے گئے۔ (مرقاة المفاتیح، حدیث نمبر:327)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
مرقاة المفاتیح: (باب ما يوجب الوضوء، رقم الحدیث: 327، 369/1، ط: دار الفکر)
327 - وعنه، قال: «أهديت له شاة فجعلها في القدر، فدخل رسول الله - صلى الله عليه وسلم - فقال: (ما هذا يا أبا رافع؟) فقال: شاة أهديت لنا يا رسول الله! فطبختها في القدر. قال: (ناولني الذراع يا أبا رافع!) فناولته الذراع. ثم قال: (ناولني الذراع الآخر) فناولته الذراع الآخر. ثم قال (ناولني الذراع الآخر) فقال له: يا رسول الله! إنما للشاة ذراعان. فقال له رسول الله - صلى الله عليه وسلم -: أما إنك لو سكت لناولتني ذراعا فذراعا ما سكت، ثم دعا بماء فتمضمض فاه، وغسل أطراف أصابعه، ثم قام فصلى، ثم عاد إليهم، فوجد عندهم لحما باردا، فأكل، ثم دخل المسجد فصلى ولم يمس ماء» . رواه أحمد.
(ثم دعا بماء فتمضمض فاه) : أي: حرك ماء فمه، وفي نسخة: فمضمض. في القاموس: المضمضة تحريك الماء في الفم، وتمضمض للوضوء مضمض (وغسل أطراف أصابعه) : أي: محل الدسومة والتلوث على قدر الحاجة لا على قصد التكبير(ثم قام فصلى، ثم عاد إليهم): أي: إلى أبي رافع وأهل بيته...الخ
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی