عنوان: صحابہ کرام ؓ کا سنت مؤکدہ اور نفل نماز پڑھنا(11183-No)

سوال: میں جاننا چاھتا ہوں کہ صحابہ کرام سنت اور نفل نماز پڑھتے تھے یا نہیں؟ مہربانی کر کے راہنمائی کریں۔

جواب: صحابہ کرام ؓ سے پنج وقتہ فرض نمازوں کے علاوہ سنن مؤکدہ کا اہتمام اور حسب استطاعت نوافل پڑھنا مختلف روایات میں منقول ہے۔ چنانچہ ذیل میں پہلے سنن مؤکدہ کے حوالے سے چند روایات ذکر کی جاتی ہیں:
۱) حضرت ابراہیم نخعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ صحابہ کرام ؓ ظہر سے پہلے چار رکعت اور ظہر کے بعد دو رکعت پڑھنا سنت سمجھتے تھے، اور عصر سے پہلے دو رکعت پڑھتے تھے، مگر اسے سنت نہیں سمجھتے تھے (کیونکہ وہ نفل نماز ہے)۔ اسی طرح مغرب اور عشاء کے بعد دو اور فجر سے پہلے دو رکعت پڑھتے تھے۔ (مصنف عبد الرزاق، حدیث نمبر: 4830)
۲) حضرت ابو عبیدہ کہتے ہیں کہ حضرت عبد اللہ ؓ کی (فرض کے علاوہ) نفل نماز ان رکعات سے کم نہ ہوتی : چار رکعت ظہر سے پہلے اور دو رکعت ظہر کے بعد، دو رکعت مغرب کے بعد، دو رکعت عشاء کے بعد اور دو رکعت فجر کی نماز سے پہلے۔ (مصنف عبد الرزاق، حدیث نمبر: 4815)
۳) حضرت ابراہیم نخعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے صحابہ سب سے زیادہ اہتمام ظہر سے پہلے چار رکعت اور فجر سے پہلے دو رکعت کا فرمایا کرتے تھے۔ (مصنف عبد الرزاق، حدیث نمبر: 4829)
۴) حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ (یعنی ان کی حیات مبارکہ میں) ظہر سے پہلے دو رکعت، ظہر کے بعد دو رکعت، مغرب اور عشاء کے بعد دو رکعت اور جمعہ کی نماز کے بعد دو رکعت پڑھی ہیں۔ (مصنف عبد الرزاق، حدیث نمبر: 4809)
۵) حضرت حسان بن عطیہ سے منقول ہے کہ جب حضرت عنبسہ بن ابوسفیان کی وفات قریب ہوئی تو وہ تڑپنے لگے، ان سے کہا گیا (یعنی ان کو تسکین دی گئی) تو انھوں نے فرمایا: میں نے نبی کریم ﷺ کی زوجہ محترمہ حضرت ام حبیبہ‬ؓ کو نبی کریم ﷺ سے یہ بیان فرماتے ہوئے سنا ہے: "جو شخص ظہر سے پہلے چار رکعات اور ظہر کے بعد چار رکعات (یعنی دو رکعت سنت مؤکدہ اور اس کے بعد دو رکعت نفل) پڑھے، اللہ تعالی اس کا گوشت آگ پر حرام کر دے گا۔" جب سے میں نے یہ روایت سنی ہے، میں نے یہ رکعات نہیں چھوڑیں۔ (سنن نسائی، حدیث نمبر: 1812)
اسی طرح ذخیرہ احادیث میں صحابہ کرام ؓ کے نوافل پڑھنے سے متعلق بھی بہت سی روایات ملتی ہیں، جن میں سے چند روایات ذیل میں ذکر کی جاتی ہیں:
۱) حضرت ابو قتادہ ؓ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے (حضرت) ابو بکرؓ سے فرمایا: "میں کل (تہجد کے وقت) تمہارے پاس سے گزرا، تم قرآن پڑھ رہے تھے، مگر تمہاری آواز کچھ دھیمی تھی؟" تو انہوں نے کہا: میں تو صرف اس ذات کو سنا رہا تھا، جس سے میں مناجات کر رہا تھا (یعنی اللہ تعالی کو) تو آپ ﷺ نے فرمایا: "اپنی آواز کچھ بلند کر لیا کرو" اور (حضرت) عمر ؓ سے فرمایا: "میں کل (تہجد کے وقت) تمہارے پاس سے گزرا، تم قرآن پڑھ رہے تھے اور تمہاری آواز بہت اونچی تھی؟ ‘‘تو انہوں نے کہا: میں سوتوں کو جگا رہا تھا اور شیطان کو بھگا رہا تھا، تو آپ ﷺ نے فرمایا: " تم اپنی آواز تھوڑی دھیمی کرلیا کرو"۔ (سنن ترمذی، حدیث نمبر: 447)
۲) حضرت کعب بن عجرہؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ قبیلہ بنی عبد الاشہل کی مسجد میں تشریف لائے اور وہاں مغرب کی نماز پڑھی۔ نماز کے بعد آپ ﷺ نے ان کو دیکھا کہ وہ مغرب کی نماز کے بعد نفل پڑھ رہے ہیں تو آپ ﷺ نے فرمایا: "یہ گھروں کی نماز ہے (یعنی نوافل گھر میں پڑھنا بہتر ہے)"۔ (سنن ابو داود، حدیث نمبر: 1300)
۳) حضرت ابن عباس ؓ کہتے ہیں کہ جب سورہ مزمل کا ابتدائی حصہ «قُمِ اللَّيْلَ إِلَّا قَلِيلًا» نازل ہوا تو صحابہ کرامؓ ایسے قیام کرتے تھے جیسے کہ رمضان میں قیام کرتے ہیں حتی کہ اس سورت کا آخری حصہ نازل ہوا اور ان دونوں حصوں کے نزول میں ایک سال کا فرق تھا۔ (سنن ابو داود، حدیث نمبر: 1305)
۴) حضرت زید بن ثابت ؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے مسجد میں کھجور کی چٹائی کو کھڑا کرکے حجرہ سا بنا لیا (تاکہ سکون سے رات کی نماز پڑھ سکیں) اللہ کے رسول ﷺ نے کئی راتیں اس میں نماز پڑھی حتیٰ کہ لوگ بھی آپ ﷺ کے قریب جمع ہونے لگ گئے (اور آپ کی نماز کے ساتھ نماز پڑھنے لگے) پھر ایک رات انہوں نے آپ ﷺ کی آواز محسوس نہ کی۔ انہوں نے سمجھا کہ شاید آپ ﷺ سوئے ہوئے ہیں۔ ان میں سے کچھ کھنکارنے لگے، تاکہ آپ ﷺ (جاگ کر) ان کی طرف تشریف لے آئیں۔ (مگر آپ ﷺ نہ نکلے، پھر صبح کے وقت) آپ ﷺ نے فرمایا: جو کچھ تم کرتے رہے ہو، میں دیکھتا رہا ہوں (مگر میں اس لیے نہیں نکلا کہ) مجھے خطرہ پیدا ہوا کہ کہیں تم پر رات کی نماز فرض ہی نہ کردی جائے اور اگر تم پر فرض کردی جاتی تو تم اسے ادا نہ کر پاتے، لہذا اے لوگو! رات کی نماز اپنے گھروں میں پڑھ لیا کرو، کیونکہ فرض نماز کے علاوہ انسان کی افضل نماز وہ ہے جو گھر میں پڑھے۔" (سنن نسائی، حدیث نمبر: 1599)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

مصنف عبد الرزاق: (رقم الحدیث: 4830، ط: المكتب الإسلامي - بيروت)
عن الثوري، عن منصور، عن إبراهيم قال: «كانوا يعدون من السنة أربعا قبل الظهر وركعتين بعدها» قال: وكانوا يركعون قبل العصر ركعتين ولا يعدونها من السنة، وبعد المغرب ركعتين، وبعد العشاء ركعتين، وقبل الفجر ركعتين"

و فیه ایضاً: (رقم الحدیث: 4815، ط: المكتب الإسلامي - بيروت)
عن الثوري، عن عمرو بن مرة، عن أبي عبيدة قال: كان تطوع عبد الله الذي لا ينقص منه: أربعا قبل الظهر وركعتين بعدها، وركعتين بعد المغرب، وركعتين بعد العشاء، وركعتين قبل صلاة الغداة

و فیه ایضاً: (رقم الحدیث: 4829، ط: المكتب الإسلامي - بيروت)
عن الثوري، عن حماد، عن إبراهيم قال: «لم يكن أصحاب النبي صلى الله عليه وسلم على شيء أشد مثابرة منهم على أربع ركعات قبل الظهر وركعتين قبل الغداة»

و فیه ایضاً: (رقم الحدیث: 4809، ط: المكتب الإسلامي - بيروت)
عن ابن جريج قال: بلغني عن نافع قال: قال ابن عمر: «صليت مع رسول الله صلى الله عليه وسلم قبل الظهر ركعتين وبعد الظهر ركعتين، وبعد المغرب ركعتين، وبعد العشاء ركعتين، وبعد الجمعة ركعتين، فأما الجمعة والمغرب والعشاء ففي بيته»

سنن النسائي: (رقم الحدیث: 1812، ط: مكتب المطبوعات الإسلامية)
عن ‌حسان بن عطية قال: لما نزل ‌بعنبسة جعل يتضور، فقيل له: فقال: أما إني سمعت ‌أم حبيبة زوج النبي صلى الله عليه وسلم تحدث عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه قال: «من ركع أربع ركعات قبل الظهر، وأربعا بعدها، حرم الله عز وجل لحمه على النار فما تركتهن منذ سمعتهن».

سنن الترمذی: (رقم الحدیث: 447، ط: دار الغرب الاسلامی)
حدثنا ‌محمود بن غيلان، قال: حدثنا ‌يحيى بن إسحاق، قال: حدثنا ‌حماد بن سلمة، عن ‌ثابت البناني ، عن ‌عبد الله بن رباح الأنصاري، عن ‌أبي قتادة، «أن النبي صلى الله عليه وسلم قال لأبي بكر»: مررت بك وأنت تقرأ وأنت تخفض من صوتك فقال: إني أسمعت من ناجيت، قال: ارفع قليلا وقال لعمر: مررت بك وأنت تقرأ وأنت ترفع صوتك قال: إني أوقظ الوسنان وأطرد الشيطان، قال: اخفض قليلا

سنن ابی داود: (رقم الحدیث: 1300، ط: دار الرسالة العالمية)
حدثنا أبو بكر بن أبي الأسود، حدثني أبو مطرف محمد بن أبي الوزير، حدثنا محمد بن موسى الفطري، عن سعد بن إسحاق بن كعب بن عجرة، عن أبيه عن جده: أن النبي - صلى الله عليه وسلم - أتى مسجد بني عبد الأشهل، فصلى فيه المغرب، فلما قضوا صلاتهم رآهم يسبحون بعدها، فقال: "هذه صلاة البيوت"

سنن ابی داود: (رقم الحدیث: 1305، ط: دار الرسالة العالمية)
حدثنا أحمد بن محمد - يعني المروزي - ,حدثنا وكيع، عن مسعر، عن سماك الحنفي عن ابن عباس قال: لما نزلت أول المزمل كانوا يقومون نحوا من قيامهم في شهر رمضان، حتي نزل آخرها، وكان بين أولها وآخرها سنة.

سنن النسائي: (رقم الحدیث: 1599، ط: مكتب المطبوعات الإسلامية)
أخبرنا ‌أحمد بن سليمان، قال: حدثنا عفان بن مسلم، قال: حدثنا ‌وهيب، قال: سمعت ‌موسى بن عقبة ، قال: سمعت ‌أبا النضر يحدث عن ‌بسر بن سعيد ، عن ‌زيد بن ثابت : أن النبي صلى الله عليه وسلم «اتخذ حجرة في المسجد من حصير، فصلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فيها ليالي، حتى اجتمع إليه الناس، ثم فقدوا صوته ليلة، فظنوا أنه نائم، فجعل بعضهم يتنحنح ليخرج إليهم فقال: ما زال بكم الذي رأيت من صنعكم، حتى خشيت أن يكتب عليكم، ولو كتب عليكم ما قمتم به، فصلوا أيها الناس في بيوتكم فإن أفضل صلاة المرء في بيته إلا الصلاة المكتوبة».

واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی

Print Full Screen Views: 391 Oct 12, 2023
sahaba karam ka sunnate muakkadah or nafil namaz parhna

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Salath (Prayer)

Managed by: Hamariweb.com / Islamuna.com

Copyright © Al-Ikhalsonline 2024.