سوال:
شیخ یوسف کا انتقال ہوا۔ ان کی پراپرٹی تقریباً دس کروڑ کی ہے اور ان کے اوپر چار کروڑ قرضہ ہے۔
ورثاء میں دو بیویاں ہیں، جن میں سے ایک پاکستانی بیوی ہے اور اس سے ایک بیٹی ہے، اور دوسری جاپانی بیوی ہے اور اس سے ایک بیٹا ہے۔ جاپانی بیوی کو پیپرز میں کافی عرصے پہلے طلاق دے چکے تھے جو حقیقت میں ہوجاتی ہے اور اس کی عدت بھی ختم ہوگئی ہے۔ اس کے علاوہ چار بھائی اور پانچ بہنیں بھی حیات ہیں۔
اس ضمن میں کچھ سوالات معلوم کرنے ہیں:
۱) کیا جس بیوی کو طلاق دے چکے تھے، اس بیوی کو بھی ان کی میراث میں سے حصہ ملے گا؟
۲) کیا میراث کی تقسیم سے پہلے قرض ادا کیا جائے؟ اور دس کروڑ میں سے وصیت کتنے مال میں لاگو ہوگی؟
۳) ان کی وراثت میں سے کس کس کو حصہ ملے گا؟
جواب: ۱) مرحوم نے جس بیوی کو طلاق دی تھی اور اس بیوی کی عدت بھی گزر گئی تو اس سابقہ بیوی کو مرحوم کی میراث میں کچھ حصہ نہیں ملے گا۔
۲) جی ہاں! مرحوم کی تجہیز و تکفین کے بعد سب سے پہلے مرحوم کا قرضہ (چار کروڑ) ادا کیا جائے گا، پھر اگر کسی غیر وارث کے لیے کوئی وصیت کی ہو تو ایک تہائی (1/3) میں وصیت نافذ کی جائے گی، اس کے بعد باقی ماندہ ترکہ شرعی ورثاء میں تقسیم کیا جائے گا۔
۳) مرحوم کی تجہیز و تکفین کے جائز اور متوسط اخراجات، قرض (چار کروڑ) کی ادائیگی اور اگر کسی غیر وارث کے لیے جائز وصیت کی ہو تو ایک تہائی (1/3) میں وصیت نافذ کرنے کے بعد بقیہ چھ کروڑ (60000000) کو چوبیس (24) حصوں میں تقسیم کیا جائے گا، جس میں سے پاکستانی بیوی کو پچھتر لاکھ (7500000) روپے، بیٹے کو تین کروڑ پچاس لاکھ (35000000) روپے اور بیٹی کو ایک کروڑ پچھتر لاکھ (17500000) روپے ملیں گے، جبکہ مرحوم کے بہن بھائیوں اور سابقہ بیوی کو مرحوم کی میراث میں سے کچھ حصہ نہیں ملے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
القرآن الکریم: (النساء، الایة: 11)
يُوصِيكُمُ اللّهُ فِي أَوْلاَدِكُمْ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنثَيَيْنِ فَإِن كُنَّ نِسَاءً فَوْقَ اثْنَتَيْنِ فَلَهُنَّ ثُلُثَا مَا تَرَكَ وَإِن كَانَتْ وَاحِدَةً فَلَهَا النِّصْفُ ... الخ
و قوله تعالیٰ: (النساء، الایة: 12)
وَلَهُنَّ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَكْتُمْ إِن لَّمْ يَكُن لَّكُمْ وَلَدٌ فَإِن كَانَ لَكُمْ وَلَدٌ فَلَهُنَّ الثُّمُنُ مِمَّا تَرَكْتُم مِّن بَعْدِ وَصِيَّةٍ تُوصُونَ بِهَا أَوْ دَيْنٍ ... الخ
السراجي في الميراث: (ص: 8، ط: مكتبة البشرى)
الحقوق المتعلقة بتركة الميت: قال علمائنا رحمهم الله: تتعلق بتركة الميت حقوق أربعة مرتبة: الأول: يبدأ بتكفينه وتجهيزه من غير تبذير ولاتقتير، ثم تقضى ديونه من جميع ما بقي من ماله، ثم تنفذ وصاياه من ثلث ما بقي بعد الدين، ثم يقسم الباقي بين ورثته بالكتاب والسنة وإجماع الأمة.
الهندية: (462/1، ط: دار الفکر)
"قال الخجندي: الرجل إذا طلق امرأته طلاقًا رجعيًّا في حال صحته أو في حال مرضه برضاها أو بغير رضاها ثم مات وهي في العدة فإنهما يتوارثان بالإجماع، وكذا إذا كانت المرأة كتابيةً أو مملوكةً وقت الطلاق فأسلمت في العدة أو أعتقت في العدة فإنها ترث، كذا في السراج الوهاج.
ولو طلقها طلاقًا بائنًا أو ثلاثًا ثم مات وهي في العدة فكذلك عندنا ترث، ولو انقضت عدتها ثم مات لم ترث، وهذا إذا طلقها من غير سؤالها، فأما إذا طلقها بسؤالها فلا ميراث لها، كذا في المحيط".
الفتاوی الھندیة: (90/6، ط: دار الفکر)
تصح الوصية لأجنبي من غير إجازة الورثة، كذا في التبيين ولا تجوز بما زاد على الثلث إلا أن يجيزه الورثة بعد موته وهم كبار ولا معتبر بإجازتهم في حال حياته، كذا في الهداية
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی