سوال:
ایک لڑکے نے قسم کھائی کہ اگر میں نے اس کمپنی یا دکان سے چوری کی تو میری بیوی کو طلاق ہوگی، طلاق ہوگی، طلاقی ہوگی۔ قسم کھانے کی ضرورت اس لیے پیش آئی کہ یہ لڑکا کمپنی سے چوری کرنے کا عادی تھا۔
پھر اس کے بعد یہ ہوا کہ کمپنی کے مینیجر نے کمپنی کے ملازمین کے لیے کھانا لانے کے لیے اس لڑکے کو پیسے دیے اور اس لڑکے نے ان پیسوں میں سے چوری کرلی۔
جب اس لڑکے نے یہ قسم کھائی تھی اس کا صرف نکاح ہوا تھا، اور اس چوری کے بعد اس کی رخصتی ہوئی، اس لڑکے کو یاد نہیں رہا تھا کہ میں نے یہ قسم اٹھائی ہوئی ہے اور قسم کے خلاف کام مجھ سے ہو بھی گیا ہے، اب اس کو رخصتی کے کئی عرصہ بعد یاد آیا ہے کہ میں نے تو اس طرح کی قسم اٹھائی تھی۔
اس ضمن میں آپ سے تین سوالات کے جوابات مطلوب ہیں:
1) کیا کمپنی کے ملازمین کے کھانا لانے کے لیے دیے ہوئے پیسوں میں سے چوری کرنے سے طلاق واقع ہوگئی ہے؟
2) اگر طلاق واقع ہوگئی ہے تو کتنی واقع ہوئی ہیں، کیونکہ اس وقت تک رخصتی نہیں ہوئی تھی، صرف نکاح ہوا تھا۔
3) اگر ایک طلاق واقع ہوئی ہے تو کیا یہ لڑکا عدت میں ہی دوبارہ اپنی بیوی سے نکاح کرسکتا ہے؟
جواب: واضح رہے کہ اگر کوئی شخص اپنی غیر مدخول بہا منکوحہ کو تین طلاقیں ایک ساتھ یا الگ الگ الفاظ کے ساتھ کسی شرط پر معلق کرکے دے دے تو راجح قول کے مطابق شرط پائے جانے کی صورت میں تینوں طلاقیں واقع ہوجاتی ہیں۔
سوال میں ذکر کردہ صورت میں چونکہ شوہر نے اپنی غیر مدخول بہا بیوی کی طلاقیں کمپنی سے چوری نہ کرنے کی شرط پر معلق کی تھی، لہذا اگر مینیجر نے اسے کمپنی کے پیسے دیے ہوں (اپنے ذاتی پیسے نہ دیے ہوں) تو کمپنی کے پیسے چوری کرنے کی وجہ سے طلاق واقع ہونے کی شرط پائی گئی ہے، جس سے اس کی بیوی پر تین طلاقیں واقع ہو چکی ہیں، اور یہ عورت اس مرد کے لیے حرمت غلیظہ کے ساتھ حرام ہوچکی ہے، لہذا اب ان کا آپس میں ایک ساتھ رہنا اور میاں بیوی والے تعلقات قائم رکھنا ناجائز اور حرام ہے۔ ان پر شرعا لازم ہے کہ فورا علیحدگی اختیار کریں اور اب تک ساتھ رہنے اور میاں بیوی والے تعلقات قائم رکھنے پر ندامت کے ساتھ اللہ تعالی کے حضور توبہ و استغفار کریں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
فتح القدیر: (395/3، ط: مکتبة رشیدیة)
(قوله: ولو قال لها) أي لغير المدخول بها (إن دخلت الدار فأنت طالق واحدة وواحدة فدخلت وقع عليها واحدة عند أبي حنيفة، وقالا ثنتان): لهما أن الواو للجمع المطلق: أي لجمع المتعاطفات مما قبلها وما بعدها في الحكم سواء كان عاملا كجاء زيد وعمرو أو لا كزيد وعمرو وبكر جاءوا مطلقا: أي بلا قيد معية أو ترتب بل أعم من ذلك يصدق مع كل منهما فقد جمع بين الواحدة والواحدة في التعليق بدخول الدار فصار كما إذا جمع بينهما بلفظ الجمع بأن قال: إن دخلت الدار فأنت طالق ثنتين، وكما إذا أخر الشرط والمسألة بحالها، وهذا التفريق اللفظي لا أثر له لأنه في حال التكلم يتعلق الطلاق لا في حال التطليق تنجيزا، بخلاف قوله لغير المدخول بها: أنت طالق واحدة وواحدة لأنه في حال الإيقاع ولا موجب لتوقف الأول فيقع، أما هنا فيتوقف فيتعلق الكل دفعة ثم ينزلن كذلك فيقع الكل، ولو سلم التعاقب في التعليق فالمتعلقات بشرط واحد على التعاقب تنزل جملة عند وجوده كما لو حصل بأيمان تتخللها أزمنة؛ كما لو قال: إن دخلت الدار فأنت طالق ثم بعد زمان قال: إن دخلت فأنت طالق فدخلت يقع الكل اتفاقا، وقول المصنف كما إذا نص على الثلاث غير مناسب للصورة وكذا فيتعلقن ويقعن.... فإذا وجد الشرط وقع الكل جملة، بخلاف ما إذا نجز لأنها بانت بالأولى فلم تبق محلا لإيقاع الثنتين وقولهما أرجح.
الدر المختار مع رد المحتار: (289/3، ط: دار الفکر)
(و) تقع (واحدة إن قدم الشرط) لأن المعلق كالمنجز
(قوله وتقع واحدة إن قدم الشرط) هذا عنده وعندهما ثنتان أيضا ورجحه الكمال وأقره في البحر، وقوله لأن المعلق كالمنجز: أي يصير عند وجود شرطه كالمنجز، ولو نجزه حقيقة لم تقع الثانية، بخلاف ما إذا أخر الشرط لوجود المغير زيلعي
نجم الفتاوی: (340/6)
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی