سوال:
شوہر نے غصہ کی حالت میں دو سے تین بار بولا میں تمہیں آزاد کرتا ہوں، پھر اگلے دن غصہ کی حالت میں بولا کہ میں نے تمہیں آزاد کر دیا ہے اپنا سامان(جہیز) میرے گھر سے اٹھا لو۔ پھر بعد میں شوہر نے بولا کہ میری نیت نہیں تھی، براہ کرم رہنمائی فرمائیں کہ اس کا شرعی حکم کیا ہے؟ اور اگر اس کے بعد کوئی طلاق ہوجائے تو کیا وہ واقع ہو جائے گی؟
جواب: واضح رہے کہ شوہر کا اپنی بیوی سے یہ کہنا "میں تمہیں آزاد کرتا ہوں" ہمارے عرف میں طلاق کے لیے صریح بن چکا ہے، لہذا اس جملہ سے بلا نیت بھی طلاق واقع ہو جاتی ہے۔
سوال میں ذکر کردہ صورت میں چونکہ شوہر نے غصہ کی حالت میں اپنی بیوی سے تین مرتبہ یہ کہا ہے کہ "میں تمہیں آزاد کرتا ہوں"، لہذا اس سے اس کی بیوی پر تین طلاقیں واقع ہوگئی ہیں، جس سے اس کی بیوی اس پر حرمت مغلظہ کے ساتھ حرام ہوگئی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
رد المحتار: (299/3، ط: دار الفكر)
بخلاف فارسية قوله سرحتك وهو " رهاء كردم " لأنه صار صريحا في العرف على ما صرح به نجم الزاهدي الخوارزمي في شرح القدوري اه وقد صرح البزازي أولا بأن: حلال الله علي حرام أو الفارسية لا يحتاج إلى نية، حيث قال: ولو قال حلال " أيزدبروي " أو حلال الله عليه حرام لا حاجة إلى النية، وهو الصحيح المفتى به للعرف وأنه يقع به البائن لأنه المتعارف ثم فرق بينه وبين سرحتك فإن سرحتك كناية لكنه في عرف الفرس غلب استعماله في الصريح فإذا قال " رهاكردم " أي سرحتك يقع به الرجعي مع أن أصله كناية أيضا، وما ذاك إلا لأنه غلب في عرف الفرس استعماله في الطلاق.
و فیه ایضاً: (252/3، ط: دار الفكر)
(قوله فيقع بلا نية للعرف) أي فيكون صريحا لا كناية، بدليل عدم اشتراط النية وإن كان الواقع في لفظ الحرام البائن لأن الصريح قد يقع به البائن كما مر، لكن في وقوع البائن به بحث سنذكره في باب الكنايات، وإنما كان ما ذكره صريحا لأنه صار فاشيا في العرف في استعماله في الطلاق لا يعرفون من صيغ الطلاق غيره ولا يحلف به إلا الرجال، وقد مر أن الصريح ما غلب في العرف استعماله في الطلاق بحيث لا يستعمل عرفا إلا فيه من أي لغة كانت، وهذا في عرف زماننا كذلك فوجب اعتباره صريحا كما أفتى المتأخرون في أنت علي حرام بأنه طلاق بائن للعرف بلا نية مع أن المنصوص عليه عند المتقدمين توقفه على النية
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی