عنوان: حالت صحت میں بیوی کو مالک بنا کر چیزیں دینا، نیز مرحومہ بہن کا حصہ کم ملنے کی صورت میں مرحومہ کے بہن بھائیوں کا مرحوم بہنوئی کی جائیداد میں سے باقی حصہ کا مطالبہ کرنا(12260-No)

سوال: زید کا انتقال ہوگیا، وفات کے وقت زید کی کوئی اولاد نہیں تھی۔ وفات سے پہلے زید نے اپنی بیوی کو اُن کے اپنے زیورات واپس کئے اور کچھ رقم اور ایک دو دکانیں یہ کہتے ہوئے " یہ آپ کا حق ہے" اُن کے نام کر دیں۔
زید کی وفات پر اُن کے ترکے کا ایک حصہ اُن کی بیوہ کو دے دیا گیا اور باقی رقم و جائیداد اُن کے بہن بھائیوں میں تقسیم ہو گئی۔ اِس تقسیم میں کچھ رشتہ داروں کو کئی تحفظات تھے تو وہ مسئلہ سُلجھانے کے چکر میں اپنا کیس کورٹ لے گئے۔ کچھ عرصہ بعد زید کی بیوہ بھی انتقال کرگئی اور اولاد نہ ہونے کی وجہ سے اُن کا ترکہ اُن کے بہن بھائیوں میں تقسیم ہوگیا۔ اب کورٹ میں زید کے ترکے کے ساتھ ساتھ زید کی بیوہ کے ترکے کا بھی مسئلہ پیش ہوگیا ہے۔ زید کی بیوہ کے بھائیوں کا مطالبہ ہے کہ زید کے ترکے میں سے جو حصہ زید کے بہن بھائیوں کے پاس گیا ہے، اُس میں اُن کی بہن (زید کی بیوہ) کا بھی حق ہے اور اب چونکہ اُن کا انتقال بھی ہوگیا ہے، لہذا اُن کا (زید کی بیوہ) جو حق بنتا تھا، وہ ہمیں دیں۔ اب پوچھنا یہ ہے:
۱) زید نے اپنی زندگی میں جو زیورات ، رقم اور جائیداد اپنی بیوی کو دی ہیں، کیا یہ فعل صحیح تھا؟
۲) اس کے بعد بھی زید کے ترکہ میں سے زید کی بیوہ حصہ لینے کا کتنا حق رکھتی تھیں یا نہیں ؟
۳) زید کے بہن بھائی زید کے ترکے میں حصہ دار تھے یا نہیں؟
٤) زید کی بیوہ کا ترکہ اُن کے بھائیوں میں تقسیم ہوا، کیا یہ فعل صحیح تھا ؟
۵) کیا زید کی بیوہ کے بھائیوں کا مطالبہ (زید کے ترکے کے بارے میں) جائز اور صحیح ہے؟
تنقیح: محترم! اس بات کی وضاحت فرمائیں کہ
(۱) زید نے زیورات، رقم اور دکان اپنی بیوی کو حالت صحت میں دی تھیں یا حالت مرض میں؟
(۲) "بیوی کو ایک حصہ دیا" اس سے کتنا حصہ دینا مراد ہے؟ اس کی وضاحت فرمائیں۔
(۳) زید نے یہ تینوں چیزیں بیوی کے نام کی تھیں یا مالکانہ تصرف اور قبضہ بھی دیا تھا؟
(۴) زید کے انتقال کے وقت ان کے والدین یا ان میں سے کوئی ایک زندہ تھا؟
(۵) زید کی بیوی کے انتقال کے وقت ان کے والدین یا ان میں سے کوئی ایک زندہ تھا؟
ان باتوں کی وضاحت کے بعد ہی آپ کے سوال کا جواب دیا سکے گا۔ جزاک اللہ خیرا
جواب تنقیح:
۱) زید نے زیورات وغیرہ حالتِ صحت میں مالکانہ تصرف کے ساتھ دیئے تھے۔
۲) زید کے انتقال پر اُس کی بیوہ کو کتنا حصہ دیا، یہ دونوں پارٹیوں کو یاد نہیں، آیا کہ %25 دیا تھا یا %50 فیصد!
۳) قانونی طور پر مالِک بنا کر قبضہ دے دیا تھا۔
٤) زید کے انتقال کے وقت اُن کے والدین میں سے کوئی بھی حیات نہیں تھا۔
۵) زید کی بیوہ کے انتقال کے وقت اُن کے والدین میں سے کوئی حیات نہیں تھا۔

جواب: 1) زندگی میں ہر شخص اپنی ملکیت کا خود مالک و مختار ہوتا ہے، لہٰذا زید کا اپنی زندگی میں بیوی کو زیورات، رقم اور مکان مالکانہ تصرف کے ساتھ ہبہ (Gift) کرنا درست ہے۔
2) واضح رہے کہ شرعی طور پر وراثت انتقال کے بعد جاری ہوتی ہے، زندگی میں وراثت جاری نہیں ہوتی، لہذا اگر زندگی میں کسی وارث کو کوئی چیز ہبہ کری ہو تو اس کی وجہ سے وہ وراثت سے محروم نہیں ہوتا۔ چونکہ زید کی اولاد نہیں ہے، اس لیے زید کی بیوی کا زید کی میراث میں ایک چوتھائی (1/4) حصہ ہے جو اس کو یا اس کے مرنے کے بعد اس کے شرعی وارثوں میں شریعت کے میراث کے قانون کے مطابق تقسیم ہوگا۔
3) پوچھی گئی صورت میں زید کی بیوہ کو حصہ ملنے کے بعد زید کی باقی جائیداد زید کے بہن بھائیوں میں ان کے شرعی حصوں کے مطابق تقسیم ہوگی۔
۴) چونکہ زید کی بیوہ کی اولاد اور والدین نہیں ہیں، اس لیے زید کی بیوی کا ترکہ اس کے بہن بھائیوں میں شریعت کے میراث کے قانون کے مطابق تقسیم ہوگا۔
۵) اگر ورثاء نے زید کی بیوہ کو اس کا مکمل حصہ (1/4) نہیں دیا تھا تو زید کی بیوی کے بہن بھائیوں کا بقیہ حصہ کا مطالبہ کرنا درست ہے اور اگر مکمل حصہ دے دیا تھا تو پھر مطالبہ کرنا درست نہیں ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

القرآن الکریم: (النساء، الایة: 12)
وَلَهُنَّ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَكْتُمْ إِن لَّمْ يَكُن لَّكُمْ وَلَدٌ فَإِن كَانَ لَكُمْ وَلَدٌ فَلَهُنَّ الثُّمُنُ مِمَّا تَرَكْتُم مِّن بَعْدِ وَصِيَّةٍ تُوصُونَ بِهَا أَوْ دَيْنٍ ... الخ

و قوله تعالیٰ: (النساء، الایة: 176)
وَ اِنْ کَانُوْآ اِخْوَۃً رِّجَالًا وَّ نِسَآئً فَلِلذَّکَرِ مِثْلُ حَظِّ الْاُنْثَیَیْنِ ... الخ

البحر الرائق: (کتاب الفرائض، 346/9، ط: رشیدیة)
وأما بيان الوقت الذي يجري فيه الإرث فنقول: هذا فصل اختلف المشايخ فيه، قال مشايخ العراق: الإرث يثبت في آخر جزء من أجزاء حياة المورث، وقال مشايخ بلخ: الإرث يثبت بعد موت المورث".

درر الحكام فی شرح مجلة الاحكام: (المادة: 879، 487/2، ط: دار الجیل)
لو وهب أحد جميع امواله في حال صحته لأحدِ ورثتِه وسلّمه إياها وتوفّى بعد ذالك فليس لسائر الورثة المداخلة في الهبة.

درر الحكام في شرح مجلة الأحكام (المادة؛ 837، 396/2، ط: دار الجیل)
تنعقد الهبة بالإيجاب والقبول وتتم بالقبض.
تنعقد الهبة والهدية والصدقة بالإيجاب والقبول وتتم بقبض الهبة والهدية والصدقة قبضا كاملا أي بقبض الموهوب له أو نائبه ومعنى تتم أي يفيد الملكية، فعلى هذا الوجه يكون الإيجاب والقبول هما ركن الهبة والصدقة والهدية كما أن الإيجاب والقبول هما ركن البيع والإجارة والعقود الأخرى.
قلنا: إن ركن الهبة الإيجاب والقبول؛ لأن الهبة عقد (وقيام العقد يكون بالإيجاب والقبول)؛ لأن ملك الإنسان لا ينتقل للغير ما لم يملك من طرفه للغير ويوجب المالك ذلك كما أن إيجاب الهبة هو إلزام الملك للغير ولا إلزام بدون قبول (الكفاية والقهستاني)

الھندیة: (378/4، ط: دار الفکر)
"لايثبت الملك للموهوب له إلا بالقبض هو المختار، هكذا في الفصول العمادية".

واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی

Print Full Screen Views: 297 Nov 01, 2023
halat e sehat me biwi ko malik bana kar chezain dena,neiz marhoma behen ka hissa kum milne ki sorat me marhoma k behen ka marhom behnoi ki jaidad me se hissa ka mutalba karna

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Inheritance & Will Foster

Managed by: Hamariweb.com / Islamuna.com

Copyright © Al-Ikhalsonline 2024.