سوال:
السلام علیکم! میرا سوال یہ ہے کہ ایک دفعہ میرے دوست نے مجھ سے کہا کہ ہم جمعرات کو مسجد میں بیان سنیں گے اور وہیں ایک رات رہیں گے، میں نے جانے سے انکار کر دیا۔ اس پر میرے دوست نے مجھ سے کہا کہ اللہ نے تجھے پسند نہیں کیا اور اللہ تجھے نا پسند کرتا ہے۔ کیا وہ یہ بات کر سکتا ہے؟
جواب: اللہ تعالیٰ کس کو پسند فرماتے ہیں اور کس کو ناپسند، لہذا کسى معین شخص کے متعلق یہ کہنا کہ اللہ تعالى اسے ناپسند کرتے ہیں، ظاہر ہے کہ اس کا علم وحى کے بغیر ممکن نہیں ہے، چنانچہ اگر نبی کسی شخص کے متعلق یہ بات فرمائیں تو وہ کہہ سکتے ہیں، کیونکہ ان پر وحی کا نزول ہوتا تھا، اس کے علاوہ کوئی غیر نبی کسی خاص شخص کے متعلق اللہ تعالیٰ کے ارادے اور پسند و ناپسند کا نہیں بتا سکتا ہے۔
ہاں! اگرچہ نیک عمل اللہ کی خوشنودی کا ذریعہ ضرور ہے، لیکن اس کی بنا پر اللہ تعالیٰ کی پسندیدگی کا حتمی فیصلہ کرنا ممکن نہیں ہے، ذیل کی دو حدیثیں ملاحظہ ہوں:
1) حضرت ابو ھریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آنحضرت ﷺنے ارشاد فرمایا: "تم سے کسی شخص کو بھی (محض) اس کا عمل نجات نہیں دلا سکے گا"۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے عرض کیا: اے اللہ رسول! کیا آپ کو بھی؟ آپ ﷺ نے جواب میں ارشاد فرمایا: "اور مجھے بھی نہیں" (نیک عمل نجات نہیں دلا سکے گا)، مگر یہ کہ اللہ تعالیٰ مجھے اپنی رحمت کے سایہ میں ڈھانپ لے (تو پھر نجات ہو جائے گی)"۔ (صحیح بخارى: حدیث نمبر: 6463)
2) حضرت ام علاء رضی اللہ عنہا بیان کرتى ہیں کہ حضرت عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ کى وفات کے بعد جب نبی کریم ﷺ تشریف لائے تو میں نے آپ کے سامنے ان کے متعلق کہا: اے ابو سائب (یہ حضرت عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ کی کنیت ہے) تم پر اللہ کی رحمتیں ہوں، میری تمہارے متعلق گواہی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تمہیں اپنے اکرام سے نوازا ہے۔ یہ سن کر نبی کریم ﷺ نے فرمایا :"تمہیں یہ کیسے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنے اکرام سے نوازا ہے؟" میں نے عرض کیا: مجھے تو اس سلسلے میں کچھ خبر نہیں ہے۔ میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں یا رسول اللہ! لیکن اگر اللہ تعالى ان (جیسے نیک انسان) کو نہیں نوازیں گے تو پھر کس کو نوازیں گے؟ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: "اس میں تو کوئى شک نہیں ہے کہ بخدا ان کو موت آچکى ہے، اللہ کی قسم میں بھی ان کے لیے اللہ تعالیٰ سے خیر خواہی کی امید رکھتا ہوں، لیکن میں باوجود اللہ تعالیٰ کا رسول ہونے کے میں خود اپنے متعلق نہیں جان سکتا کہ میرے ساتھ کیا معاملہ ہونے والا ہے"۔ ام علاء رضی اللہ عنہا نے کہا: پھر اللہ کی قسم کہ اس کے بعد میں اب کسی کے بارے میں تزکیہ نہیں کروں گی۔ ان کا بیان ہے کہ اس واقعہ پر مجھے بڑا رنج ہوا۔ پھر میں سو گئی تو میں نے خواب میں دیکھا کہ عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ کے لیے ایک بہتا ہوا چشمہ ہے۔ میں آپ کی خدمت میں حاضر ہوئی اور آپ سے اپنا خواب بیان کیا تو آپ ﷺ نے فرمایا: "یہ ان کا عمل تھا"۔(صحیح بخاری: حدیث نمبر: 3929)
مذکورہ بالا احادیث سے مندرجہ ذیل ہدایات ملتی ہیں:
1) محض نیک اعمال پر بھروسہ کرنا درست نہیں ہے، بلکہ اللہ کے فضل و کرم پر نظر رکھنی چاہیے اور اپنے متعلق ڈرتے رہنا چاہیے کہ معلوم نہیں کہ یہ عمل اللہ تعالیٰ قبول فرمائیں یا رد فرما دیں۔
2) دنیا میں کسى شخص کے متعلق نجاتِ اخروی کا فیصلہ کرنا اور اللہ تعالیٰ کے ارادے اور مشیت پر مطلع ہونا کسی شخص کے لیے ممکن نہیں ہے، لہذا دنیا میں کسی معین شخص کے متعلق جنت و جہنم یا اللہ تعالیٰ کی اس کے متعلق پسندیدگی اور نا پسندیدگی کا فیصلہ کرنا بھی ممکن نہیں ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
صحيح البخاري: (كتاب الرقاق، باب القصد و المداومة على العمل، رقم الحديث: 6463، 98/8، ط: دار طوق النجاة)
عن أبي هريرة رضي الله عنه، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "لن ينجي أحدا منكم عمله"، قالوا: ولا أنت يا رسول الله؟ قال: "ولا أنا، إلا أن يتغمدني الله برحمة، سددوا وقاربوا، واغدوا وروحوا، وشيء من الدلجة، والقصد القصد تبلغوا".
صحيح البخاري: (كتاب فضائل الصحابة، باب مقدم النبي صلى الله عليه وسلم وأصحابه المدينة، رقم الحديث: 3929، 67/5، ط: دار طوق النجاة)
عن خارجة بن زيد بن ثابت، أن أم العلاء، امرأة من نسائهم، بايعت النبي صلى الله عليه وسلم، أخبرته: أن عثمان بن مظعون طار لهم في السكنى، حين اقترعت الأنصار على سكنى المهاجرين، قالت أم العلاء: فاشتكى عثمان عندنا فمرضته حتى توفي، وجعلناه في أثوابه، فدخل علينا النبي صلى الله عليه وسلم، فقلت: رحمة الله عليك أبا السائب، شهادتي عليك لقد أكرمك الله، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: "وما يدريك أن الله أكرمه"، قالت: قلت: لا أدري، بأبي أنت وأمي يا رسول الله، فمن؟ قال: "أما هو فقد جاءه والله اليقين، والله إني لأرجو له الخير، وما أدري والله وأنا رسول الله ما يفعل بي"، قالت: فوالله لا أزكي أحدا بعده، قالت: فأحزنني ذلك، فنمت، وفريت لعثمان بن مظعون عينا تجري، فجئت رسول الله صلى الله عليه وسلم فأخبرته، فقال: "ذلك عمله".
واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی