عنوان: قبر میں اور قیامت کے دن قرآن کریم کا اپنے پڑھنے والے کے لیے شفاعت کرنے سے متعلق دو احادیث کی تحقیق (12264-No)

سوال: مفتی صاحب! کیا مندرجہ ذیل احادیث صحیح ہیں، اور کیا ان کو آگے بھیج سکتے ہیں؟
۱) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب کوئی آدمی مرتا ہے اور اس کے رشتہ دار جنازے میں مصروف ہوتے ہیں تو اس کے سر کے پاس ایک انتہائی خوبصورت آدمی کھڑا ہوتا ہے۔ جب میت کو کفن دیا جاتا ہے تو وہ آدمی کفن اور میت کے سینے کے درمیان آ جاتا ہے۔ جب تدفین کے بعد لوگ گھر لوٹتے ہیں تو دو فرشتے یعنی منکر اور نکیر (جو دو خاص فرشتوں کے نام ہیں) قبر میں آتے ہیں اور اس خوبصورت آدمی کو مردہ آدمی سے الگ کرنے کی کوشش کرتے ہیں، تاکہ وہ اس قابل ہو سکیں کہ مردہ آدمی سے اس کے ایمان کے بارے میں رازداری میں پوچھ گچھ کریں، لیکن خوبصورت آدمی کہے گا، وہ میرا ساتھی ہے، وہ میرا دوست ہے، میں اسے اکیلا نہیں چھوڑوں گا، اگر آپ کو تفتیش کے لیے مقرر کیا گیا ہے تو اپنا کام کریں، میں اسے اس وقت تک نہیں چھوڑ سکتا جب تک کہ میں اسے جنت میں داخل نہ کر دوں۔ اس کے بعد وہ اپنے مردہ ساتھی کی طرف متوجہ ہو کر کہتا ہے کہ میں وہ قرآن ہوں جسے تم پڑھا کرتے تھے، کبھی بلند آواز میں اور کبھی دھیمی آواز میں، فکر نہ کرو! ان کے پوچھ گچھ کے بعد تمہیں کوئی غم نہیں ہوگا۔ جب پوچھ گچھ ختم ہو جاتی ہے تو خوبصورت آدمی المالعلا (جنت کے فرشتے) سے اس کے لیے مشک سے بھرا ہوا ریشمی بستر ترتیب دیتا ہے۔
۲) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "قیامت کے دن اللہ کے نزدیک کوئی اور سفارشی قرآن سے بڑا نہیں ہوگا، نہ کوئی نبی اور نہ فرشتہ"۔
۳) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "مجھ سے علم پہنچا دو خواہ ایک آیت ہی کیوں نہ ہو"۔

جواب: سوال میں ذکر کردہ تین روایات کا ترجمہ اور ان كى اسنادى حيثيت درج ذيل ہے:
1) قرآن کریم کے قبر میں اپنے پڑھنے والے کى سفارش کرنے سے متعلق یہ حدیث حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کى طویل حدیث کا ایک مختصر حصہ ہے، اس طویل حدیث کو حافظ بزار رحمہ اللہ (م 292 ھ) نے اپنى کتاب "مسند البزار" جلد 7 ص 97 میں نقل فرمایا ہے، جس کا ترجمہ حسب ذیل ہے:
ترجمہ:
حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: "تم میں سے اگر کوئی شخص رات کو نماز پڑھے تو بلند آواز سے قراءت کرے، کیونکہ فرشتے بھى اس کی نماز کے ساتھ ساتھ نماز پڑھتے ہیں اور اس کی قراءت کو سنتے ہیں اور فضا میں موجود مؤمن جنات اور ان کے پڑوسى جو اس گھر میں رہتے ہیں، وہ بھی اس کی نماز کے ساتھ ساتھ نماز پڑھتے ہیں اور اس کی قراءت کو سنتے ہیں اور وہ شخص اپنی قراءت کی بلند آوازی سے اپنے گھر سے اور اپنے آس پاس کے گھروں سے فاسق جنات کو اور سرکش شیاطین کو بھگاتا ہے۔ اور بے شک وہ گھر جس میں قرآن کریم پڑھا جائے اس کے اوپر نور کا ایک خیمہ تنا ہوتا ہے، اس نورانى خیمے کى آسمان والے ایسی ہی پیروی کرتے ہیں، جیسے وہ (زمین والے) سمندر کى گہرائیوں میں اور خشک بیابانوں میں کوکب دری (آسمان کا روشن ستارہ) کى پیروى کرتے ہیں، جب یہ قرآن پڑھنے والا صاحب قرآن فوت ہو جاتا ہے تو یہ نورانى خیمہ اٹھا لیا جاتا ہے، چنانچہ آسمان سے جب فرشتے دیکھتے ہیں اور انہیں وہ نور نظر نہیں آتا ہے تو وہ فرشتے اس مرنے والے کی وفات کى خبر ایک آسمان سے دوسرے آسمان تک پہنچاتے ہیں اور پھر فرشتے اس کی روح پر سلام بھیجتے ہیں، پھر وہ آسمان کے فرشتے اس فوت شدہ صاحب قرآن کے محافظ فرشتوں کا استقبال کرتے ہیں اور وہ فرشتے اس کے لیے قیامت کے دن تک استغفار کرتے رہتے ہیں۔ اور آپ نے فرمایا: تم سے جو شخص بھی اللہ تعالی کی کتاب کو سیکھے تو جب بھى وہ رات کے کسی حصے میں اس سکیھے ہوئے قرآن کی تلاوت کرتا ہے تو وہ گزرنے والی رات اگلی رات کو وصیت کر کے جاتی ہے کہ اس کو تم بھى رات کے اس پہر جگا دینا اور اس پر ہلکی ہو جانا اور جب وہ صاحب قرآن فوت ہو جاتا ہے اور اس کے گھر والے اس کے تجہیز و تکفین کر رہے ہوتے ہیں تو قرآن کریم حسین و جمیل شکل میں آتا ہے اور اس کے سر کے پاس آکر کھڑا ہو جاتا ہے، یہاں تک کہ اس (صاحب قرآن) کو جب کفنایا جاتا ہے، قرآن کریم اس کے کفن کے نیچے اس کے سینے پر جا گزیں ہو جاتا ہے، چنانچہ جب اس کو قبر میں اتار دیا جاتا ہے اور اس پر مٹی ڈال دی جاتی ہے اور اس کے احباب اس سے رخصت ہو جاتے تو منکر نکیر اس کے پاس آتے ہیں اور اس کو قبر میں بٹھاتے ہیں تو قرآن کریم آجاتا ہے اور اس صاحب قرآن اور منکر نکیر کے درمیان کھڑا ہو جاتا ہے، اس پر منکر نکیر اس سے کہتے ہیں: تم اس سے ہٹ جاؤ تاکہ ہم اس سے سوال و جواب کر سکیں، تب قرآن کریم ان سے کہتا ہے: نہیں، اللہ کی قسم میں نہیں ہٹوں گا، یہ میرا ساتھی اور دوست ہے اور میں اس سے کسی بھی حالت میں نہیں ہٹوں گا، اگر تمہیں کسی کام کا حکم دیا گیا ہے تو تم اس کام کو کر گزرو اور مجھے میرى جگہ چھوڑ دو، اگر اللہ نے چاہا تو میں جب تک اس کو جنت میں نہ داخل کروا دوں اس وقت تک اسے نہیں چھوڑوں گا، پھر قرآن کریم اس شخص کو دیکھتا ہے اور اسے کہتا ہے: پر سکون رہو، بے شک تم مجھے اپنے پڑوسیوں میں سچا پڑوسی، دوستوں میں سچا دوست اور اپنے ساتھیوں میں سچا ساتھی پاؤ گے، تو وہ شخص (صاحب قرآن) اس سے کہتا ہے: تم کون ہے؟ قرآن کریم اس سے کہتا ہے: میں وہ قرآن ہوں جسے تو بلند اور مخفی آواز سے پڑھا کرتا تھا اور تو مجھ سے محبت کرتا تھا، میں تیرا محبوب ہوں اور جس سے تو نے محبت کى اللہ تعالى بھى اس سے محبت فرماتا ہے۔ اور تیرے اوپر منکر نکیر کے سوال و جواب کے بعد تجھے نا کوئى غم ہوگا، نا کوئی اندیشہ ہوگا نا کوئی پریشانی ہوگی، پس منکر نکیر اس سے سوال کرتے ہیں اور اوپر کو چلے جاتے ہیں، اور وہاں قبر میں وہ (صاحب قرآن) اور قرآن کریم باقى رہ جاتے ہیں، تب قرآن کریم اس سے کہتا ہے: میں تیرے لیے نرم بستر بچھاتا ہوں اور تیرے لیے نہایت خوبصوت اوڑھنا اوڑھاتا ہوں، یہ انعام بدلہ ہے تیرے اس قرآن پڑھنے کا جو تو نے رات کو جاگ کر پڑھا اور دن کو کھڑے ہو کر پڑھا۔ آپ صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پھر قرآن کریم پلک جھپکنے کی تیزی سے بھی زیادہ تیز اوپر آسمان کی طرف جاتا ہے اور اللہ تعالی سے اس کے لیے یہ ساری چیزیں مانگتا ہے اور اللہ تعالی اس کو عطا فرما دیتے ہیں تو یہ ساری چیزیں چھٹے آسمان کے دس لاکھ مقرب فرشتے اس کے پاس لے کر اترتے ہیں اور قرآن کریم آکر اس سے کہتا ہے: تم نے میرے جانے کے بعد تنہائى اور وحشت تو محسوس نہیں کى؟ میں جب سے تمہیں چھوڑ کر یہاں سے گیا ہوں میں مسلسل اللہ تبارک و تعالی سے تمہارے بارے میں سفارش کرتا رہا ہوں، یہاں تک کہ میں نے تمہارے لیے اللہ تعالى سے ایک بچھونا، اوڑھنا اور ایک چراغ حاصل کر لیا ہے اور انہیں میں لے کر آیا ہوں، اٹھو! تاکہ یہ فرشتے تمہارے نیچے اس کو بچھا دیں، آپ نے فرمایا: چنانچہ وہ فرشتے بڑى ہى نرمى اور پیار سے اس کو اٹھاتے ہیں اور اس کی قبر کے اندر چار سو سال کی مسافت جتنی کشادگی کر دی جاتی ہے، پھر اس کے لیے فرشتے اس کا بچھونا بچھاتے ہیں، جس کا استر سبز ریشم کا اور اس کے اندر اذخر کی مشک بھری ہوئی ہوتی ہے اور اس کے سرہانے اور پائنتى کے پاس سندس (ریشمى کپڑا) اور استبرق (موٹا ریشمى کپڑا ) کے چھوٹے چھوٹے تکیے رکھ دیے جاتے ہیں اور اس کے سرہانے اور پائنتى کے پاس جنت کے نور سے دو چراغ روشن کر دیے جاتے ہیں جو قیامت کے دن تک روشن رہیں گے، پھر فرشتے اس کو قبلہ رخ داہنى کروٹ پر لٹا دیتے ہیں، پھر جنت کی چنبیلى کى خوشبو اس کے پاس لائى جاتى ہے، وہاں سے وہ اوپر چلے جاتے ہیں، اس کے بعد وہ (صاحب قرآن) اور قرآن کریم وہیں رہ جاتے ہیں، قرآن کریم یاسمین (چنبیلی خوشبو) کو لیتا ہے اور اس کے ناک پر لگا کر اسے تر کر دیتا ہے اور پھر وہ (صاحب قرآن) اس خوشبو کو قبر سے اٹھائے جانے تک (قیامت تک) سونگتا رہے گا، پھر قرآن کریم اس کے گھر والوں کے پاس جاتا ہے اور ہر دن او ہر رات کو آکر اس صاحب قرآن کو اس کے گھر والوں کے احوال سے مطلع کرتا ہے، اس کى ایسى خبر گیرى کرتا ہے جیسے ایک مہربان والد اپنے بیٹے کے حالات کى خبر رکھتا ہے، اگر اس صاحب قرآن کى اولاد میں سے کوئى قرآن کریم سیکھتا ہے تو قرآن کریم آکر اس کو اس بات کى خوش خبرى سناتا ہے، اور اگر اس کے پسماندگان میں سے کوئی شخص برے حال (گناہ کى حالت) میں ہوتا ہے تو وہ ان کے لیے نیکی کی اور بھلائی کی دعا کرتا ہے"۔
(مسند بزار: حدیث نمبر: 2655)
حدیث کى اسنادى حیثیت:
اس حدیث کو حافظ منذری رحمہ اللہ (م 656 ھ) نے اس حدیث کو اپنى کتاب "الترغیب والترھیب" میں تمریض کے صیغے کے ساتھ نقل کیا ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ ان کے نزدیک یہ حدیث ضعیف ہے، مزید یہ کہ انہوں نے اس حدیث کی سند پر کلام کرتے ہوئے یہ تبصرہ فرمایا ہے کہ اس حدیث کی سند میں ایسے راوی ہیں جن کا حال معلوم نہیں ہے اور اس کے متن میں بہت ہی زیادہ غرابت (انوکھا پن) بلکہ نکارت (عجیب وغریب مضمون) واضح ہے اور اس حدیث پر حافظ عقیلی رحمہ اللہ نے اور ان کے علاوہ دیگر محدثین نے بھی کلام کیا ہے۔
حافظ ہیثمی رحمہ اللہ (م 807 ھ) نے اپنى کتاب "مجمع الزوائد" میں اس حدیث کو نقل کیا ہے اور یہ کہا ہے کہ امام بزار رحمہ اللہ نے یہ فرمایا ہے کہ خالد بن معدان كا سماع حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ ثابت نہیں ہے اور اس روایت کے اندر ایسے راوی بھی ہیں جن کا حال ہمیں معلوم نہیں ہے۔
خلاصہ یہ ہے کہ یہ حدیث محدثین کے نزدیک "ضعیف" ہے، نیز اس حدیث پر ان کا تبصرہ بھى اس بات کا تقاضہ کرتا ہے کہ احتیاط اس میں ہے کہ اس حدیث کو ضعف کى صراحت کے بغیر بیان نہ کیا جائے، بلکہ قرآن کریم کى فضیلت پر متعدد صحیح وحسن احادیث موجود ہیں، ان کو بیان کرنا چاہیے۔
2) ترجمہ: سعید بن سلیم رحمہ اللہ سے مرسلا مروى ہے کہ رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: "قیامت کے دن اللہ تعالى کے نزدیک قرآن کریم سے بڑھ کر کوئى سفارش کرنے والا نہ ہوگا، نہ کوئى نبى اور نہ ہى کوئى فرشتہ وغیرہ"۔
مذکورہ بالا حدیث امام غزالى رحمہ اللہ (م 505 ھ) نے اپنى کتاب "إحیاء علوم الدین" جلد 1 ص 273 ، ط: دار المعرفۃ، میں نقل فرمائى ہے۔
حدیث کى اسنادى حیثیت:
اس حدیث کو حافظ عراقى رحمہ اللہ (م 806 ھ) نے "تخریج أحادیث الإحیاء" ص 363 (2)، ط: دار ابن حزم میں نقل فرمائى ہے، اور اس حدیث کے متعلق فرمایا ہے: اس روایت کو عبد الملک بن حبیب رحمہ اللہ نے سعید بن سلیم سے مرسلا روایت کیا ہے۔
حافظ عراقى رحمہ اللہ نے اس حدیث پر مزید کوئى کلام نہیں فرمایا ہے۔
حافظ سبکى رحمہ اللہ (م 771 ھ) نے"طبقات شافعیہ" 6/ 301 میں اس حدیث کے متعلق ارشاد فرمایا ہے کہ مجھے اس کى سند نہیں مل سکى ہے۔
خلاصہ یہ کہ اس حدیث کى سند چونکہ موجود نہیں ہے، اس لیے اس کى اسنادى حیثیت کے متعلق حتمى بات نہیں کہى جاسکتى ہے، البتہ "فضائل اعمال" ميں اس روایت کو بیان کیا جا سکتا ہے، حضرت شیخ الحدیث رحمہ اللہ نے اپنى کتاب "فضائل اعمال" میں"فضائل قرآن" کے رسالے میں اس حدیث کو نقل فرمایا ہے۔
3) یہ حدیث "صحیح بخاری" میں مذکور ہے۔
ترجمہ: حضرت عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما سے مروى ہے کہ رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: "میرى طرف سے پہنچاؤ اگرچہ ایک آیت ہو"۔(صحیح بخاری: حدیث نمبر: 3461)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

صحيح البخاري: (كتاب أحاديث الأنبياء، باب ما ذكر عن بني إسرائيل، رقم الحديث: 3461، 170/4، ط: دار طوق النجاة)
عن عبد الله بن عمرو أن النبي صلى الله عليه وسلم قال: "‌بلغوا ‌عني ‌ولو ‌آية وحدثوا عن بني إسرائيل ولا حرج ومن كذب علي متعمدا فليتبوأ مقعده من النار".

مسند البزار: (رقم الحديث: 2655، 97/7، ط: مكتبة العلوم والحكم - المدينة المنورة)
حدثنا سلمة بن شبيب، قال: أخبرنا بسطام بن خالد الحراني، قال: أخبرنا نصر بن عبد الله أبو الفتح، عن ثور بن يزيد، عن خالد بن معدان، عن معاذ بن جبل رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " ‌من ‌صلى ‌منكم ‌من ‌الليل فليجهر بقراءته؛ فإن الملائكة تصلي بصلاته، وتسمع لقراءته، وإن مؤمني الجن الذين يكونون في الهواء، وجيرانه معه في مسكنه يصلون بصلاته، ويستمعون قراءته، وإنه ليطرد بجهر قراءته عن داره، وعن الدور التي حوله فساق الجن، ومردة الشياطين، وإن البيت الذي يقرأ فيه القرآن عليه خيمة من نور يقتدي بها أهل السماء كما يقتدون بالكوكب الدري في لجج البحار، وفي الأرض القفر فإذا مات صاحب القرآن رفعت تلك الخيمة فينظر الملائكة من السماء فلا يرون ذلك النور فتنعاه الملائكة من سماء إلى سماء فتصلي الملائكة على روحه في الأرواح، ثم تستقبل الملائكة الحافظين اللذين كانا معه، ثم تستغفر له الملائكة إلى يوم يبعث، وما من رجل تعلم كتاب الله، ثم صلى ساعة من الليل إلا أوصت به تلك الليلة الماضية الليلة المستقبلة أن تنبهه لساعته، وأن تكون عليه خفيفة، وإذا مات وكان أهله في جهازه يجيء القرآن في صورة حسنة جميلة واقفا عند رأسه حتى يدرج في أكفانه فيكون القرآن على صدره دون الكفن، فإذا وضع في قبره، وسوي عليه، وتفرق عنه أصحابه أتاه منكر، ونكير فيجلسانه في قبره يجيء القرآن حتى يكون بينه وبينهما فيقولان له: إليك حتى نسأله، فيقول: لا ورب الكعبة إنه لصاحبي، وخليلي ولست أخذله على حال فإن كنتما أمرتما بشيء فامضيا لما أمرتما، ودعاني مكاني فإني لست أفارقه حتى أدخله الجنة إن شاء الله، ثم ينظر القرآن إلى صاحبه، فيقول له: اسكن فإنك ستجدني من الجيران جار صدق ومن الأخلاء خليل صدق، ومن الأصحاب صاحب صدق، فيقول له: من أنت؟، فيقول: أنا القرآن الذي كنت تجهر بي، وتخفيني، وكنت تحبني فأنا حبيبك فمن أحببته أحبه الله ليس عليك بعد مسألة منكر، ونكير من غم، ولا هم، ولا حزن، فيسأله منكر، ونكير، ويصعدان، ويبقى هو والقرآن، فيقول: لأفرشنك فراشا لينا، ولأدثرنك دثارا حسنا جميلا جزاء لك بما أسهرت ليلك، وأنصبت نهارك، قال، فيصعد القرآن إلى السماء أسرع من الطرف فيسأل الله ذلك له فيعطيه الله ذلك، فينزل به ألف ألف من مقربي السماء السادسة فيجيئه القرآن، ويقول: هل استوحشت؟ ما زلت مذ فارقتك أن كلمت الله تبارك وتعالى حتى أخرجت لك منه فراشا، ودثارا، ومصباحا وقد جئتك به فقم حتى تفرشك الملائكة، قال: فتنهضه الملائكة إنهاضا لطيفا، ثم يفسح له في قبره مسيرة أربع مائة عام ثم يوضع له فراش بطانته من حرير أخضر حشوه المسك الأذخر، ويوضع له مرافق عند رجليه ورأسه من السندس، والإستبرق، ويسرج له سراجان من نور الجنة عند رأسه ورجليه يزهران إلى يوم القيامة، ثم تضجعه الملائكة على شقه الأيمن مستقبل القبلة، ثم يؤتى بياسمين من ياسمين الجنة، ويصعد عنه، ويبقى هو والقرآن فيأخذ القرآن الياسمين فيضعه على أنفه غضا فيستنشقه حتى يبعث، ويرجع القرآن إلى أهله فيخبره بخبرهم كل يوم وليلة، ويتعاهده كما يتعاهد الوالد الشفيق ولده بالخبر فإن تعلم أحد من ولده القرآن بشره بذلك، وإن كان عقبه عقب السوء دعا لهم بالصلاح والإقبال أو كما ذكر " وهذا الحديث لا نعلمه يروى عن النبي صلى الله عليه وسلم بهذا اللفظ إلا من هذا الوجه ولم يسمع خالد بن معدان من معاذ وإنما ذكرناه لأنا لم نحفظه عن النبي صلى الله عليه وسلم، إلا من هذا الوجه فلذلك ذكرناه، وإنما يجيء ثواب القرآن، والدليل على ذلك أنه يروى عن النبي صلى الله عليه وسلم: «أن اللقمة أو الكسرة تجيء يوم القيامة مثل أحد» ، وإنما يجيء ثوابها، فكل شيء من ذلك يروى عن النبي صلى الله عليه وسلم مما يكون في الآخرة فإنما هو الثواب .
والحديث أروده المنذري في "الترغيب "1/ 243، ط: دار الكتب العلمية، بصيغة التمريض، وقال: رواه البزار وقال خالد بن معدان لم يسمع من معاذ، ومعناه أنه يجيء ثواب القرآن كما قال إن اللقمة تجيء يوم القيامة مثل أحد وإنما يجيء ثوابها،انتهى.
قال الحافظ :في إسناده من لا يعرف حاله ،وفي متنه غرابة كثيرة بل نكارة ظاهرة ،وقد تكلم فيه العقيلي وغيره ورواه ابن أبي الدنيا وغيره عن عبادة بن الصامت موقوفا عليه ولعله أشبه.
والحديث أورده الهيثمي في "مجمع الزوائد " (كتاب الصلاة/ باب ثان في صلاة الليل، 2/ 253، رقم الحديث (3530 )، ط: مكتبة القدسي، القاهرة)
" وقال: رواه البزار وقال :خالدبن معدان لم يسمع من معاذ، ومعناه أنه يجيء ثواب القرآن كما قال: إن اللقمة تجيء يوم القيامة مثل أحد وإنما يجيء ثوابها قلت: وفيه من لم أجد من ترجمه".

إحياء علوم الدين: (273/1، ط: دار المعرفة)
"وَقَالَ صلى الله عليه وسلم ‌مَا ‌مِنْ ‌شفيع أفضل منزلة عند الله تعالى من القرآن لا نبي ولا ملك ولا غيره ".

تخريج أحاديث الإحياء: (رقم الحديث: 2، ص: 323، ط: دار ابن حزم)
حَدِيث :"مَا من شَفِيع أعظم منزلَة عِنْد الله من الْقُرْآن ‌لَا ‌نَبِي وَلَا ملك وَلَا غَيره".
رَوَاهُ عبد الْملك بن حبيب من رِوَايَة سعيد بن سليم مُرْسلا وللطبراني من حَدِيث ابْن مَسْعُود "الْقُرْآن شَافِع مُشَفع"،وَلمُسلم من حَدِيث أبي أُمَامَة "اقرؤوا الْقُرْآن فَإِنَّهُ يَجِيء يَوْم الْقِيَامَة شَفِيعًا لصَاحبه".

تخريج أحاديث إحياء علوم الدين: (رقم الحديث: 804، 681/2، ط: دار العاصمة)
(وقال صلى الله عليه وسلم ما من شفيع أفضل منزلة عند الله يوم القيامة من القرآن ‌لا ‌نبي ‌ولا ‌ملك ولا غيره).
قال العراقي: رواه عبد الملك بن حبيب من رواية سعيد بن سليم مرسلاً وللطبراني من حديث ابن مسعود والقرآن شافع ومشفع ولمسلم من حديث أبي أمامة اقرؤا القرآن فإنه يجيء يوم القيامة شفيعاً لصاحبه. قال ابن السبكي: (6/ 301) لم أجد له إسناداً.

واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی

Print Full Screen Views: 991 Nov 01, 2023
qabar me or qayamat k din quran kareem ka apne parhne wale k liye shafaat karne se mutaliq 2 ahadees ke tehqeeq

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Interpretation and research of Ahadees

Managed by: Hamariweb.com / Islamuna.com

Copyright © Al-Ikhalsonline 2024.