سوال:
مفتی صاحب! میں نے لاہور میں واقع اپنے ملکیتی پلاٹ پر سال 1990ء میں بینک سے مبلغ 5 لاکھ روپے کا کچھ شرح سود پر قرضہ لیا تھا اور بینک نے حسب ضابطہ بذریعہ رجسٹرڈ Mortgage Deed پلاٹ بینک کے نام رہن کر لیا تھا۔ Mortgage Deed کی ایک شق میں درج تھا کہ اگر میں قرضہ ادا نا کر سکا تو بینک کو اختیار ہے کہ وہ بذریعہ قرقی پلاٹ کو فروخت کرکے اصل زر بمعہ سود جو بھی رقم بنے گی وصول کر لے گا۔
بعد ازاں میں بیرون ملک چلا گیا اور مصروفیت کی وجہ سے کوئی قسط بھی ادا نہ کر سکا۔ کئی سال بعد میں واپس پاکستان آیا تو پتہ چلا کہ Mortgage Deed کی بنیاد پر بینک میرے پلاٹ کی قرقی اور فروخت کی کارووائی کر رہی ہے جو کہ ابھی مکمل نہیں ہوئی۔ پلاٹ کی موجودہ قیمت اصل زر اور سود (16 لاکھ) سے بہت زیادہ تقریبا 5 کروڑ ہے۔مجھے سود پر بینک سے قرض لینےکی بہت شرمندگی، ندامت اور آخرت میں پکڑ کا خوف بھی ہے اور پلاٹ سے بھی کوئی دلچسپی نہیں اور چونکہ پلاٹ کے کاغذات بھی بینک کے پاس ہیں اور میرے پاس اتنے کاغذات نہیں ہیں کہ پلاٹ کا قبضہ لے کر فروخت کر سکوں اور بمعہ سود قرض ادا کر سکوں۔
مندرجہ بالا حالات اور واقعات کی روشنی میں مجھے رہنمائی درکار ہے کہ بینک میرے پلاٹ جس کی موجودہ قیمت 5 کروڑ تک ہے، کی قرقی اور فروختگی کا پراسیس کر رہا ہے اور مجھے کوئی اعتراض نہیں، اگر بینک پوری قیمتِ فروخت اپنے پاس رکھ لے تو میں اگر پلاٹ اور بینک سے لا تعلق ہو جاؤں تو مجھ پر قرض کی ادائیگی کا ذمہ تو نہیں ہو گا؟
جواب: واضح رہے کہ سودی بینک(Conventional Bank) سے گھر وغیرہ کیلئے قرض لینا سود پر مشتمل ہونے کی وجہ سے ناجائز اور حرام ہے، اس اجتناب لازم ہے، البتہ جو غیر سودی بینک (Islamic Bank) مستند علماء کرام کی زیرنگرانی شرعی اصولوں کے مطابق کام کر رہا ہو تو ضرورت کے موقع پر ان سے شرعی اصولوں کے مطابق گھر لینے کا معاملہ کیا جاسکتا ہے۔
پوچھی گئی صورت میں بینک کی طرف سے پلاٹ کی نیلامی کی صورت میں بینک جب اپنی واجب الاداء رقم وصول کرلے تو آپ کا قرض ادا ہوجائے گا، نیز واجب الاداء رقم کی ادائیگی کے بعد بقیہ رقم آپ کا حق ہے، اس سے دستبردار ہونا ضروری نہیں ہے، وہ آپ کے ملکیتی پلاٹ کے عوض حاصل ہونے والی جائز اور حلال رقم ہے، لہذا آپ کا اسے وصول کرنا اور استعمال کرنا شرعا جائز اور درست ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
القرآن الکریم: (آل عمران، الایة: 130)
یایھا الذین امنوا لا تاکلوا الربوا اضعافا مضاعفة ... الخ
اعلاء السنن: (566/14، ط: دار الکتب العلمیة)
"عن علي رضي اﷲ عنه مرفوعا کل قرض جر منفعة فہو ربا. وقال الموفق: کل قرض شرط فیه الزیادة فهو حرام بلا خلاف
مجلة الاحکام العدلیة: (230/1، ط: نور محمد کتب خانه)
المادۃ - 1192: کل یتصرف فی ملکه کیفما شاء، لکن اذا تعلق به حق الغیر فیمنع المالك من تصرفه علی وجه الاستقلال
والله تعالىٰ أعلم بالصواب
دارالافتاء الإخلاص،کراچی