سوال:
مفتی صاحب! اگر شوہر بیوی کے کردار پر شک کرتا ہو حتی کہ اس کے محرم رشتوں پر بھی اور اس سے بیوی اذیت کا شکار رہتی ہو تو طلاق لے سکتی ہے، اس کا کیا حل ہے؟ اسلام اس بارے کیا کہتا ہے کہ بیوی کو کیا کرنا چاہیے؟
جواب: واضح رہے کہ میاں بیوی کے رشتے کی پائیداری اور تعلقات میں خوش گواری کا دار و مدار آپس کے اعتماد اور بھروسے پر قائم ہے، اس لیے میاں بیوی کو چاہیے کہ ایک دوسرے پر اعتماد کریں اور بلاوجہ ایک دوسرے کے بارے میں بدگمانی سے بچیں، لہذا آپ کو چاہیے کہ پیار و محبت سے اپنے شوہر کو سمجھائیں اور ساتھ ساتھ آپ کوشش کریں کہ ہر اس کام سے اجتناب کریں، جس سے شوہر کو شک ہونے لگتا ہے۔ امید ہے کہ اس سے معاملات بہتر ہوجائیں گے اور اگر اس سے بھی معاملہ حل نہ ہو تو خاندان کے چند بزرگوں کو بیچ میں ڈال کر اس معاملے کو حل کرنے کی کوشش کریں، لیکن اگر کسی بھی طرح معاملہ حل نہ ہو اور شوہر کے ساتھ کسی طرح بھی گزارا ممکن نہ ہو تو آپ کے لیے شوہر سے طلاق یا خلع کا مطالبہ کرنا درست ہے۔ نیز یہ بات واضح رہے کہ خلع میں شوہر کی رضامندی شرعاً ضروری ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
القرآن الكريم: (الحجرات، الایة: 12)
يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اجْتَنِبُوا كَثِيرًا مِنَ الظَّنِّ إِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ إِثْمٌ وَلَا تَجَسَّسُوا وَلَا يَغْتَبْ بَعْضُكُمْ بَعْضًا أَيُحِبُّ أَحَدُكُمْ أَنْ يَأْكُلَ لَحْمَ أَخِيهِ مَيْتًا فَكَرِهْتُمُوهُ وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ تَوَّابٌ رَحِيمٌ o
سنن ابي داؤد: (544/3، ط: دار الرسالة العالمية)
عن حبيبة بنت سهل الأنصارية: أنها كانت تحت ثابت بن قيس بن الشماس، وأن رسول الله - صلى الله عليه وسلم - خرج إلى الصبح، فوجد حبيبة بنت سهل عند بابه في الغلس، فقال رسول الله - صلى الله عليه وسلم -: "من هذه؟ " فقالت: أنا حبيبة بنت سهل، قال: "ما شأنك؟ " قالت: لا أنا ولا ثابت بن قيس - لزوجها - فلما جاء ثابت بن قيس قال له رسول الله - صلى الله عليه وسلم -: "هذه حبيبة بنت سهل" وذكرت ما شاء الله أن تذكر، وقالت حبيبة: يا رسول الله، كل ما أعطاني عندي، فقال رسول الله - صلى الله عليه وسلم - لثابت بن قيس: "خذ منها" فأخذ منها، وجلست في أهلها.
رد المحتار: (441/3، دار الفکر)
وأما ركنه فهو كما في البدائع: إذا كان بعوض الإيجاب والقبول؛ لأنه عقد على الطلاق بعوض فلاتقع الفرقة ولايستحق العوض بدون القبول.
الهندية: (488/1، ط: دار الفكر)
إذا تشاق الزوجان وخافا أن لا يقيما حدود الله فلا بأس بأن تفتدي نفسها منه بمال يخلعها به فإذا فعلا ذلك وقعت تطليقة بائنة ولزمها المال كذا في الهداية.
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی