سوال:
اگر کوئی سفر پر نکلے اور اس کو یہ معلوم نہ ہو کہ مجھے سفر میں پندرہ دن سے کم یا زیادہ وقت گزارنا ہوگا تو اس شک میں کیا نماز قصر پڑھنی چاہیے یا پوری نماز پڑھنی چاہیے؟
جواب: واضح رہے کہ اگر کوئی شخص سفرِ شرعی پر نکلا ہو، لیکن اس کی نیت کسی جگہ پندرہ دن سے کم ٹھہرنے کی ہو یا اس کی فی الحال کوئی نیت نہ ہو، بلکہ اس بارے میں تردد کا شکار ہو کہ چند دنوں میں ہی واپس آجائے گا یا وہاں پندرہ دن یا اس سے زائد ٹھہرے گا تو جب تک یہ شخص اس جگہ ایک ساتھ پندرہ دن یا اس سے زائد ٹھہرنے کی نیت نہ کرے، تب تک ایسے شخص کے ذمہ قصر نماز پڑھنا لازم ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
الھدایة: (80/1، ط: دار احياء التراث العربي)
" ولا يزال على حكم السفر حتى ينوي الإقامة في بلدة أو قرية خمسة عشر يوما أو أكثر وإن نوى أقل من ذلك قصر " لأنه لا بد من اعتبار مدة لأن السفر يجامعه اللبث فقدرناها بمدة الطهر لأنهما مدتان موجبتان وهو مأثور عن ابن عباس وابن عمر رضي الله عنهم والأثر في مثله كالخبر والتقييد بالبلدة والقرية يشير إلى أنه لا تصح نية الإقامة في المفازة وهو الظاهر " ولو دخل مصرا على عزم أن يخرج غدا أو بعد غد ولم ينو مدة الإقامة حتى بقي على ذلك سنين قصر " لأن ابن عمر رضي الله عنه أقام بأذربيجان ستة أشهر وكان يقصر وعن جماعة من الصحابة رضي الله عنهم مثل ذلك "
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی