عنوان: قرآن وحدیث میں رزق حلال کمانے کى ترغیب اور تجارت کى فضیلت، نیز "رزق کے دس میں سے نو حصے تجارت میں ہیں" اس حدیث کى تحقیق (12308-No)

سوال: آج تک یہ سنتے آرہے ہیں کہ اسلام میں تجارت کی ترغیب دی گئی ہے اور اس طرح سنا ہے کہ رزق کے دس میں سے نو حصے تجارت میں ہیں، اس بات کی کیا حقیقت ہے؟ مزید یہ کہ ہر قسم کا کاروبار جس کا انسان خود مالک ہو وہ تجارت ہے یا اسلامی نقطہ نگاہ سے تجارت کسی خاص کاروبار کا نام ہے؟

جواب: واضح رہے کہ دنیا میں انسان کو زندگى کى ضروریات فراہم کرنے کے لیے روزى کمانے کى تگ ودو کرنى ہى پڑتى ہے، چنانچہ ایک بندۂ مؤمن کے لیے اس کے معاش کے متعلق قرآن کریم اور احادیث مبارکہ میں جو ہدایات دى گئى ہیں، ان کا بنیادى اور سب سے بڑا اصول یہ ہے کہ وہ سچائى اور امانت کے ساتھ پاکیزہ رزق حلال کما کر کھائے، قرآن کریم میں ارشاد بارى تعالى ہے:
ترجمہ: "اے لوگو! زمین میں جو حلال پاکیزہ چیزیں ہیں وہ کھاؤاور شیطان کے نقش قدم پر نہ چلو، یقین جانو کہ وہ تمہارے لیے ایک کھلا دشمن ہے"۔(سورۃ البقرۃ: آیت نمبر: 168)
ایک اور جگہ ارشاد بارى تعالى ہے:
ترجمہ: "اور اللہ نے تمہیں جو رزق دیا ہے اس میں سے حلال پاکیزہ چیزیں کھاؤ، اور جس اللہ پر تم ایمان رکھتے ہو اس سے ڈرتے رہو". (سورہ المآئدۃ: آیت نمبر: 88)
اسی طرح ارشاد ہے:
ترجمہ: "اے پیغمبرو ! پاکیزہ چیزوں میں سے (جو چاہو) کھاؤ اور نیک عمل کرو۔ یقین رکھو کہ جو کچھ تم کرتے ہو، مجھے اس کا پورا پورا علم ہے"۔(سورہ المؤمنون: آیت نمبر: 51)
مزید یہ کہ مؤمن شخص کو اس پاکیزہ حلال روزى کمانے کو فرض بھى قرار دیا گیا ہے، چنانچہ آنحضرت صلى اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامى ہے:
ترجمہ: حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروى ہے کہ آنحضرت صلى اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: "حلال مال تلاش کرنا ہر مسلمان پر واجب ہے"۔
(المعجم الأوسط للطبرانی: حدیث نمبر: 8610)
اسی طرح ارشاد فرمایا:
ترجمہ: حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروى ہے کہ رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: "حلال روزى کى تلاش ایک فرض کے بعد دوسرا فرض ہے"۔ (سنن کبرى للبیہقی:حدیث نمبر: 11695)
تشریح:
یعنى جس شخص پر اپنى یا اپنے اہل وعیال کے مالى اخراجات کى ذمہ دارى ہو اور وہ روزى کماکر ان کو پورا کر سکتا ہو تو اس پر اسلام کے ارکان و فرائض نماز، روزہ ، حج وزکوۃ کے بعدرزق حلال حاصل کرنا فرض ہے، جب رزق حلال کمانا فرض ہے، تو جس طرح فرائض اسلام کى ادائىگى عبادت ہے تو اسى طرح رزق حلال کى طلب میں کوشش کرنا بھى عبادت ہےاور ثواب کا باعث ہے، اس حدیث مبارک میں ہر اس شخص کو عبادت اور ثواب کى بشارت ہے جو تجارت، مزدورى، کاشتکارى یا دست کارى کے ذریعہ رزق حلال کى کوشش کرتا ہے، اور حرام سے بچتا ہے۔
(مستفاد از "فضائل تجارت" ص: 7، طبع: مکتبۃ الشیخ، واز"معارف الحدیث ": جلد 7 ص 482، طبع : دار الاشاعت)
مذکورہ بالا تفصیل سے معلوم ہوا کہ روزى کمانے میں بنیادى چیز "رزقِ حلال" کى طلب ہے، خواہ اس کو تجارت کے ذریعہ حاصل کیا جائے، یا محنت ومزدورى اور صنعت وحرفت کے ذریعہ حاصل کیا جائے، چنانچہ اسى تناظر میں تجارت کى بھى فضیلت احادیث مبارکہ میں موجود ہے اور دست کارى (ہاتھ کى کمائى ) کى بھى فضیلت احادیث میں موجود ہے۔
احادیث مبارکہ میں جو تجارت کے فضائل بیان فرمائے گئے ہیں، ان میں سے دو کا ذکر درج ذیل ہے:
1) ترجمہ: حضرت ابو سعید خدرى رضی اللہ عنہ سے مروى ہے کہ رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: "پورى سچائى اور دیانت دارى کے ساتھ کاروبار کرنے والا تاجر قیامت کے دن نبیوں اور صدیقوں اور شہیدوں کے ساتھ ہوگا"۔(سنن ترمذى: حدیث نمبر: 1209)
2) ترجمہ:حضرت رفاعہ بن رافع رضی اللہ عنہ سے مروى ہے کہ وہ ایک مرتبہ رسول اکرم صلى اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مسجد کى طرف جا رہے تھے تو آپ نے دیکھا کہ لوگ آپس میں خرید وفروخت (تجارت)کر رہے ہیں تو آپ صلى اللہ علیہ وسلم نے ان سے مخاطب ہوکر فرمایا: "اے تاجروں کى جماعت"، تو تمام لوگ آپ کے ارشاد کو سننے کے لیے آ گئے اورآپ کى بات سننے کے لیے اپنى آنکھوں اور گردنوں کو اونچا کر لیا تو آپ نے فرمایا: "بلا شبہ تاجر قیامت کے دن فاجروں کے زمرے میں اٹھائے جائیں گے، ہاں! مگر وہ تاجر جو اللہ سے ڈرے اور نیکى او ر سچائى کو اپنایا"۔ (سنن ترمذى: حدیث نمبر: 1210)
تشریح:
مذکورہ بالا دونوں حدیثوں کے مفہوم سے واضح ہوتا ہے کہ تجارت کے جو فضائل ہیں وہ مشروط ہیں، تقوى، امانت اور سچائى کے ساتھ، کیونکہ تجارت اور سوداگرى میں انہى چیزوں کى بار بار آزمائش ہوتى ہے، ایک تاجر کو تجارت کے دوران بار بار ایسى صورتیں پیش آتى ہیں، ان میں اگر وہ خدا خوفى اور سچائى اختیار نہ کرے تو اگرچہ اس کو دنیا کا بہت نفع حاصل ہو جائے گا، لیکن وہ تاجر کے مذکورہ بالا فضائل تو کجا قیامت کے دن فاجروں کى صف میں اٹھایا جائے گااور اگر سچائى و دیانت دارى کے امتحان میں وہ کامیاب ہو جاتا ہے تو قیامت کے دن اللہ کے مقبول ترین بندوں یعنى نبیوں، صدیقوں اور شہیدوں کے ساتھ ہوگا۔ (ماخوذ باختصار از "معارف الحدیث": جلد 7 ص 484 ، طبع: دار الاشاعت)
آپ نے سوال میں تجارت کى فضیلت سے متعلق جس حدیث کے بارے میں دریافت کیا ہے، اس طرح کا مفہوم پانچ احادیث میں مذکور ہے، ذیل میں ان احادیث کا ترجمہ اور ان کى اسنادى حیثیت کو ذکر کیا جاتا ہے:

1)حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کى روایت:
ترجمہ: حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: "رزق کے بیس دروازے ہیں انیس دروازے تاجر کے لیے ہیں اور ایک دروازہ ہاتھ سے کمائی کرنے والے کے لیے ہے"۔ (اصلاح المال لابن أبی الدنیا: حدیث نمبر: 214)
مذکورہ حدیث کى اسنادى حیثیت:
اس حدیث کى سند میں دو راویوں ("عمرو بن ہاشم ابو مالک الجنبی"اور "جویبر") پر محدثین نے کلام فرمایا ہے: "عمرو بن ہاشم ابو مالک الجنبی" کے متعلق حافظ ابن حجر عسقلانى رحمہ اللہ(م 852ھ) نے"تقریب التہذیب" ص 747 میں "لین الحدیث" قرار دیا ہے اور فرمایا ہے کہ ان کے متعلق امام ابن حبان نے سخت کلام کیا ہے۔
اور "جویبر" کے متعلق بھى حافظ ابن حجر عسقلانى رحمہ اللہ(م852ھ) نے "تقریب التہذیب" ص 205 میں "ضعیف جدا" قرار دیا ہے۔
2) حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کى روایت:
ترجمہ: حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مرفوعا روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: "اے قریش کى جماعت! یہ غلام تمہیں تجارت میں پیچھے نہ چھوڑ دیں ، بلاشبہ رزق کے بیس دروازے ہیں، ان میں سے انیس دروازے تاجر کے لیے ہیں اور ایک دروازہ دست کار (ہاتھ سے کمائى کر کے کھانے والے کے لیے ہے اور سچا تاجر کبھى بھى تنگدست نہیں ہوتا ہے، ہاں! وہ تاجر تنگدستى کا شکار ہوتا ہے جو بہت قسمیں کھانے والا بے وقعت شخص ہو"۔ (مسند الفردوس (بحوالہ زھر الفردوس) للدیلمی: حدیث نمبر: 3059)
مذکورہ حدیث کى اسنادى حیثیت:
اس حدیث کى سند میں دو راویوں (حسن بن حسین اور مندل) کے متعلق محدثین نے کلام فرمایا ہے: "حسن بن حسین" کے متعلق حافظ ذہبی رحمہ اللہ (م 748 ھ) نے "میزان الاعتدال"نے جلد 2 ص 230 میں ان کے تذکرے میں فرمایا ہے: امام ابو حاتم رحمہ اللہ نے فرمایا :محدثین کے نزدیک یہ صدوق نہیں تھے، یہ راوى شیعوں کے سرکردہ لوگوں میں سے تھے، حافظ ابن عدی رحمہ اللہ نے فرمایا : اس کى حدیث ثقہ راویوں کى حدیث جیسى نہیں ہوتى ہے،وہ معتمد راویوں سے موضوع روایات نقل کرتا ہےاور مقلوب روایات نقل کرتاہے۔
اور "مندل" کے متعلق حافظ ابن عدى رحمہ اللہ (م 365 ھ) نے "الکامل فی ضعفاء الرجال" جلد 10ص 92 میں فرمایا ہے: "انہوں نے منفرد اور انوکھى روایات نقل کى ہیں اور یہ ان روایوں میں سے ہیں جن کى حدیث لکھى جا سکتى ہے" ۔ اور حافظ ابن حجر عسقلانى رحمہ اللہ (م 852 ھ) نے"تقریب التہذیب" ص 970 میں "مندل " کو ضعیف لکھا ہے۔
3) حضرت علی بن أبی طالب رضی اللہ عنہ کى روایت:
ترجمہ: حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے مرفوعا مروى ہے کہ رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:"تمہارےکاموں(پیشوں)میں سے بہتر کام اورن اور ریشم کا کپڑا ہے (ان سے کپڑا بننا وغیرہ)اور تمہارى بہترین تجارت کپڑے کى تجارت ہےاور رزق کے نو حصے تجارت میں ہیں اور باقى ایک حصہ دوسرے پیشوں میں ہے"۔ (فردوس الأخبار للدیلمی: حدیث نمبر: 2701)
مذکورہ حدیث کى اسنادى حیثیت:
اس حديث كے پہلے جزء کو حافظ زین الدین عراقى رحمہ اللہ (م 806 ھ) نے "تخریج أحادیث الإحیاء" جلد 1 ص 429 رقم الحدیث (1635) نقل کر کے فرمایا ہے: "مجھے اس کى سند نہیں ملى ہے، یہ حدیث کو صاحب فردوس الأخبار نے حضرت على بن أبی طالب رضی اللہ عنہ کے حوالے سے نقل فرمائى ہے"۔
4) حضرت نُعَیم بن عبد الرحمن الأزدى رحمہ اللہ کى روایت:
ترجمہ: حضرت نُعَیم بن عبد الرحمن الأزدى رحمہ اللہ کہتے ہیں: مجھے یہ حدیث پہنچى ہے کہ رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: "رزق کے نو حصے تجارت میں ہیں"، نعیم کہتے ہیں اوررزق کا دسواں حصہ "سائبہ" میں ہے، یعنی بکریوں کے اندر ہے۔ (مسند مسددبن مسرھد (بحوالہ إتحاف الخیرۃ): حدیث نمبر: 2730)
مذكوره حديث كى اسنادى حيثيت:
اس حدیث کو حافظ بوصیری رحمہ اللہ (م 840 ھ) نے اپنى کتاب "إتحاف الخیرۃ" میں امام مسدد بن مسرھد (م 228 ھ) کى کتاب "مسند مسدد" کے حوالے سے نقل کیا ہے اور اس حدیث کے متعلق فرمایا ہے: "اس کى سند ضعیف ہے کیونکہ اس حدیث کے راوى نُعَیم بن عبدالرحمن مجہول ہیں "۔
نیز اس حدیث کو حافظ زین الدین عراقی رحمہ اللہ (م 806ھ) نے اپنى کتاب "تخریج أحادیث الإحیاء" جلد 1 ص 419 رقم الحدیث (1588) میں ابراہیم بن إسحاق الحربی رحمہ اللہ (م 285 ھ) کى کتاب "غریب الحدیث " کے حوالے سے اس حدیث کو نقل کیا ہے اور یہ فرمایا ہے: "اس حدیث کے رجال ثقہ ہیں اور اس حدیث کے جو راوى "نُعَیم "ہیں ان کے متعلق حافظ ابن مندہ رحمہ اللہ (م 395 ھ) نے فرمایا ہے: ان کو (نُعَیم )صحابہ میں ذکر کیا گیا ہے یہ صحیح نہیں ہے، حافظ ابو حاتم الرازی اور ابن حبان رحمہما اللہ نے فرمایا ہے: "یہ تابعی ہیں اور یہ حدیث مرسل ہے"۔
5) حضرت نُعَیم بن عبد الرحمن اور حضرت یحیى بن جابر الطائى رحمہما اللہ کى روایت:
ترجمہ: حضرت نُعَیم بن عبد الرحمن اور حضرت یحیى بن جابر الطائى رحمہما اللہ سے مرسلا مروى ہے کہ آنحضرت صلى اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: "رزق کے نو حصے تجارت میں ہیں اور ایک حصہ مویشیوں کے بیوپار میں ہے"۔ (سنن سعید بن منصور (بحوالہ الجامع الصغیر للسیوطی): حدیث نمبر: 3296)
مذکورہ حدیث کى اسنادى حیثیت:
اس حدیث کو امام سیوطى رحمہ اللہ (م 911 ھ) نے اپنى کتاب "الجامع الصغیر" جلد 2 ص 680 رقم الحدیث (3296) میں حافظ سعيد بن منصور رحمہ اللہ (م 227 ھ) کے حوالے سے اس حدیث کو نقل کیا ہے، نیز اس حدیث کے نقل کرنے کے بعد حافظ سیوطی رحمہ اللہ نے علامت (ح) نقل کى ہے، جو اس بات کا اشارہ ہے کہ یہ حدیث ان کے نزدیک "حسن "ہے۔
علامہ عبد الرؤف مناوى رحمہ اللہ (م 1031ھ) نے "التیسیر بشرح الجامع الصغیر" جلد 1 ص448 میں فرمایا ہے: "نُعَیم بن عبد الرحمن الأزدی "تابعین کے تیسرے طبقے میں سے ثقہ تابعى ہیں، اسى طرح "یحیى بن جابر الطائى"یہ حمص شہر کے قاضى تھے، یہ بھى ثقہ ہیں، اکثر وبیشتر روایات کو مرسل (یعنى صحابى کے واسطے کے بغیر براہ راست آنحضرت صلى اللہ علیہ وسلم کى طرف منسوب حدیث)نقل کیا کرتے تھے اور اس حدیث کے راوى ثقہ ہیں۔
خلاصہ بحث:
1) اگر سچائى، دیانت دارى اور احکام شریعت کے مطابق رزق حلال کى خاطر اگر تجارت کى جائے تو قرآن و حدیث میں اس کى بہت بڑى فضیلت آئى ہے۔
2) رزق کا اکثر وبیشتر حصہ تجارت میں مخفى ہے، یہ بات احادیث سے ثابت ہے، جیسا کہ مذکورہ بالا روایات کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے، آنحضرت صلى اللہ علیہ وسلم نے بعض روایات میں 19 حصے اور بعض روایات میں 9 حصے رزق کو تجارت میں ہونے کا ذکر فرمایا ہے۔
3) مذکورہ بالا روایات کى اسنادى حیثیت سے معلوم ہوتا ہے کہ ان پانچ احادیث میں سے پہلى دو حدیثوں کے اندر ضعیف راوى ہیں، تیسرى حدیث کى سند کا حال معلوم نہیں ہے، جبکہ بقیہ دو روایات مرسل ہیں، ان کے راوى ثقہ ہیں، چنانچہ ان روایات کے مجموعے کو دیکھا جائے تو ان سب روایات کا مضمون باہم مشترک ہے، لہذا یہ روایات ایک دوسرے کا شاہد ہونے کى وجہ سے جن روایات کى سند میں ضعف ہے، اس کو تقویت فراہم کرتى ہے۔ جس کے پیش نظر یہ کہا جا سکتا ہے کہ تجارت کى فضیلت میں ان روایات کو بیان کیا جاسکتا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

القرآن الكريم: (البقرة، الآية: 168)
يَٰٓأَيُّهَا ٱلنَّاسُ كُلُواْ مِمَّا فِي ٱلۡأَرۡضِ حَلَٰلٗا طَيِّبٗا وَلَا تَتَّبِعُواْ خُطُوَٰتِ ٱلشَّيۡطَٰنِۚ إِنَّهُۥ لَكُمۡ عَدُوّٞ مُّبِينٌ o

و قوله تعالی: (المائدة، الآية: 88)
وَكُلُواْ مِمَّا رَزَقَكُمُ ٱللَّهُ حَلَٰلٗا طَيِّبٗاۚ وَٱتَّقُواْ ٱللَّهَ ٱلَّذِيٓ أَنتُم بِهِۦ مُؤۡمِنُون o

و قوله تعالی: (المؤمنون، الآية: 51)
يَٰٓأَيُّهَا ٱلرُّسُلُ كُلُواْ مِنَ ٱلطَّيِّبَٰتِ وَٱعۡمَلُواْ صَٰلِحًاۖ إِنِّي بِمَا تَعۡمَلُونَ عَلِيمٞ o

سنن الترمذي: (أبواب البيوع، باب ما جاء في التجار وتسمية النبي صلى الله عليه وسلم إياهم، رقم الحديث: 1209-1210، 498/2، ط: دار الغرب الإسلامي)
عن أبي سعيد ، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «التاجر الصدوق الأمين مع النبيين والصديقين والشهداء».
وقال: هذا حديث حسن.
عن إسماعيل بن عبيد بن رفاعة ، عن أبيه ، عن جده، أنه خرج مع النبي صلى الله عليه وسلم إلى المصلى فرأى الناس يتبايعون، فقال: "يا معشر التجار! فاستجابوا لرسول الله صلى الله عليه وسلم، ورفعوا أعناقهم، وأبصارهم إليه، فقال: إن التجار يبعثون يوم القيامة فجارا، إلا من اتقى الله وبر وصدق".
وقال: هذا حديث حسن صحيح.

المعجم الأوسط للطبراني: (رقم الحديث: 8610، 272/8، ط: دار الحرمين- القاهرة)
عن أنس بن مالك، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: "طلب الحلال واجب على كل مسلم".
وقال: لم يرو هذا الحديث عن الزبير بن الخريت إلا جرير بن حازم، ولا عن جرير إلا بقية، تفرد به: محمد بن أبي السري .
والحديث أورده الهيثمي في "المجمع " 10/ 291، رقم الحديث (18099)، وقال: رواه الطبراني في "الأوسط"، وإسناده حسن.

السنن الكبرى للبيهقي: (كتاب الإجارة، باب كسب الرجل وعمله بيديه، رقم الحديث: 11695، 211/6، ط: دار الكتب العلمية)
عن عبد الله قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " ‌طلب ‌كسب ‌الحلال ‌فريضة بعد الفريضة".
وقال: تفرد به عباد بن كثير الرملي، وهو ضعيف أخبرنا أبو عبد الله الحافظ قال: قرأت بخط أبي عمرو المستملي، سمعت أبا أحمد الفراء يقول: سمعت يحيى بن يحيى يسأل عن حديث عباد بن كثير في كسب الحلال قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: إن كان قاله.

مرقاة المفاتيح: (كتاب البيوع، باب الكسب وطلب الحلال، رقم الحديث: 2781، 1904/5، ط: دار الفكر- بيروت)
"قال رسول الله، صلى الله عليه وسلم (‌طلب ‌كسب ‌الحلال ‌فريضة) : أي على من احتاج إليه لنفسه، أو لمن يلزم مؤنته، والمراد بالحلال غير الحرام المتيقن ليشمل المشتبه لما مر في الأحاديث: أن التنزه عن المشتبه احتياط لا فرض، ثم هذه الفريضة لا يخاطب بها كل أحد بعينه، لأن كثيرا من الناس تجب نفقته على غيره، وقوله (بعد الفريضة) : كناية عن أن فرضية طلب كسب الحلال لا تكون في مرتبة فرضية الصلاة والصوم والحج وغيرها، فالمعنى أنه فريضة بعد الفريضة العامة الوجوب على كل مكلف بعينه، وقيل: معناه أنه فريضة متعاقبة يتلو بعضها البعض لا غاية لها، إذ كسب الحلال أصل الورع وأساس التقوى (رواه البيهقي في شعب الإيمان) : وكذا رواه الطبراني، وروى الديلمي في مسند الفردوس، عن أنس مرفوعا: "طلب الحلال واجب على كل مسلم".

إصلاح المال لابن أبي الدنيا: (باب الاحتراف، رقم الحديث: 214، ص: 73، ط: مؤسسة الكتب الثقافية- بيروت)
حدثنا عبد الرحمن بن صالح ، حدثنا عمرو بن هاشم أبو مالك الجنبي ، عن جويبر ، عن الضحاك ، عن ابن مسعود ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "‌الرزق ‌عشرون بابا ، فتسعة عشر بابا للتاجر ، وباب للصانع بيده".
وفي الإسناد: "عمرو بن هاشم "،ذكره الحافظ في "التقريب"، ص 747، وقال: ليِّن الحديث، أفرط فيه ابنُ حبان، من التاسعة. د س.
وفيه: "جويبر" ذكره الحافظ في "التقريب"ص 205، وقال: ضعيفٌ جدًّا، من الخامسة. خد ق.

زهر الفردوس: (رقم الحديث: 3059، 31/8، ط: جمعية دار البر)
قال أخبرنا أبي أخبرنا عبد الملك بن عبد الغفار أخبرنا أبو بكر أحمد بن الحسن الجُنْدي حدثنا أبو بكر بن بُخَيت حدثنا عبد الله بن زيدان حدثنا محمد بن عمرو بن حماد حدثنا حسن بن الحسين حدثنا مندل عن ابن جريج عن عطاء عن ابن عباس رفعه: "يا معشر قريش لا تعقبكم الموالي على التجارة؛ فإن الرزق عشرون بابًا، تسعة عشر منها في التاجر، وباب واحد للصانع، وما أمْلَقَ تاجر صدوق".
في الإسناد: "حسن بن الحسين"،قال الذهبي في "الميزان" 2/ 230 في ترجمته: قال أبو حاتم: لم يكن بصدوق عندهم، كان من رؤساء الشيعة. وقال ابن عدي: لا يشبه حديثه حديث الثقات. وقال ابن حبان: يأتي عن الأثبات بالملزقات، ويروي المقلوبات.
وفيه: "مندل"، قال ابن عدي في "الكامل" 10/ 92 في ترجمته: وله أحاديث أفراد وغرائب، وهو ممن يكتب حديثه. وذكره الحافظ في "التقريب" ص 970، وقال: ضعيفٌ، من السابعة. د ق.

فردوس الأخبارللديلمي: (رقم الحديث: 2701، 281/2، ط: دار الکتاب العربی)
ولفظه: "خير أعمالكم الخز، وخير تجارتكم البر، وتسعة أعشار الرزق في التجارة، والعشر الباقي في سائر الأعمال".
والحديث أورده العراقي في "تخريج أحاديث الإحياء" 1/ 429 (1635) مقتصرًا على الشطر الأول، وقال: لم أقف له على إسناد، وذكره صاحب الفردوس من حديث علي بن أبي طالب.

إتحاف الخيرة المهرة للبوصيري: (كتاب البيوع، باب في التجارة وحث التجار على الصدقة، رقم الحدیث: 2730، 275/3، ط: دار الوطن للنشر)
قال(مسدد): وثنا خالد بن عبد الله، ثنا داود بن أبي هند، عن نعيم بن عبد الرحمن، قال: بلغني أن رسول الله ﷺ قال:"تسعة أعشار الرزق في التجارة"، قال نعيم: وكسب العشر الباقي في السائبة، يعني: الغنم.
و قال البوصيري: "هذا إسناد ضعيف، لجهالة نعيم بن عبد الرحمن". والحديث أورده العراقي في "تخريج أحاديث الإحياء"1/ 419 (1588)، وعزاه لإبراهيم الحربي في "غريب الحديث"، وقال: "ورجاله ثقات، ونعيم هذا قال فيه ابن منده: ذُكر في الصحابة، ولا يصح. وقال أبو حاتم الرازي وابن حبان: إنه تابعي. فالحديث مرسل".
وأخرجه أبو عبيد في "غريب الحديث" (3/ 285 (466) ، عن هشيم، عن داود، به، مرسلًا، ولفظه: «تِسْعَةُ أَعْشَارِ الرِّزْقِ فِي التِّجَارَةِ، وَالجُزْءُ البَاقِي فِي السَّابِيَاءِ»، قال هُشيمٌ: يعني بالسَّابِياء: النتاجَ، وذكره السيوطي في "جمع الجوامع" 4/ 356 (12665)، وقال: أبو عبيد في الغريب، عن نعيم بن عبد الرحمن الأزدى معضلًا.
وأخرجه ابن أبي الدنيافي "إصلاح المال/ باب الاحتراف،7/ 451 (213) مرسلًا.

الجامع الصغيرللسيوطي: (رقم الحدیث: 3296، 680/2، ط: مکتبة نزار مصطفى الباز)
معزوا لسعيد بن منصور، مرسلًا، عن أبي نعيم ويحيى بن جابر الطائي رحمهما الله.
ولفظه: "تسعة أعشار الرزق في التجارة، والعشر الباقي في المواشي"، ورمز له بالحسن، وقال المناوي في «التيسير» 1/ 448: "(ص عن نعيم بن عبد الرحمن الأزدي) تابعي ثقة من الطبقة الثالثة، (ويحيى بن جابر الطائي مرسلًا) هو قاضي حمص ثقة يرسل كثيًرا، ورجاله ثقات".
والحديث ذكره السيوطي في "الدر المنثور" 4/ 349 أيضًا، فقال: وأخرج سعيد بن منصور عن نعيم بن عبد الرحمن الأزدي قال: قال رسول الله ﷺ... الخ.

واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی

Print Full Screen Views: 1679 Nov 13, 2023
quran wa hadees me rizq e halal kamane ki targheeb or tejarat ki fazilat,neez " rizq k 10 me se 9 hissay tejarat me hain" is hadees ki tehqiq

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Interpretation and research of Ahadees

Managed by: Hamariweb.com / Islamuna.com

Copyright © Al-Ikhalsonline 2024.