سوال:
اللھم فارج الهم و كاشف الغم فرّج همي ويسرّ أمري الخ اس دعا کی فضیلت کے بارے میں یہ لکھا ہوا دیکھا ہے کہ "جس نے اس حدیث کو دوسروں تک پہنچایا، اللہ تعالی اس کے غموں کو اس سے دور فرمادے گا"۔ کیا یہ دعا اور اس کی فضیلت درست ہے اور کیا آپ ﷺ کی طرف اس کی نسبت کرنا درست ہے؟
جواب: سوال میں ذکرکردہ دعا کی فضیلت ثابت نہیں ہے، لہذا اس دعاء اور اس کی فضیلت کی نسبت رسول اللہﷺ کی طرف کرنے سے اجتناب کیا جائے ،البتہ چونکہ دعا کے الفاظ معنی اور مفہوم کے اعتبارسے درست ہیں ،اس لیے ان الفاظ کوپڑھنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
فتاوی اللجنة الدائمة: (203/24، ط: رئاسة إدارة البحوث العلمية و الإفتاء)
باب الأدعية واسع ، فليدع العبد ربه بما يحتاجه مما لا إثم فيه۔أما الأدعية والأذكار المأثورة : فالأصل فيها التوقيف من جهة الصيغة والعدد ، فينبغي للمسلم أن يراعي ذلك ، ويحافظ عليه ، فلا يزيد في العدد المحدد ، ولا في الصيغة ، ولا ينقص من ذلك ولا يحرف فيه
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی