سوال:
میرے تین بچے ہیں، دو لڑکے بالغ اور ایک نابالغ ہے، ان کے والد کا کاروبار کافی عرصہ سے ٹھیک نہیں ہے، کافی مشکلات کا سامنا ہے اور آمدن کا کوئی ذریعہ نہیں ہے۔ ان کے نام پر میں نے کل ملا کے تین یا ساڑھے تین تولہ سونا اور ہر ایک بچے کے لیے ڈھائی لاکھ روپے رکھے ہیں تو کیا اب بھی مجھے اس مال اور سونے کی زکوۃ ادا کرنی ہوگی؟
جواب: پوچھی گئی صورت میں اگر آپ نے تین یا ساڑھے تین تولہ سونا اور مذکورہ رقم تینوں بیٹوں کے درمیان تقسیم کرکے ہر ایک کو اس کے حصہ پر مالکانہ قبضہ دے دیا ہے، اور اپنا مالکانہ تصرف اس میں باقی نہیں رکھا ہے تو اس سونے اور رقم کی زکوٰۃ آپ پر واجب نہیں ہوگی، اور اس صورت میں نابالغ بچے پر بھی اس کے حصہ کی زکوٰۃ واجب نہیں ہوگی، کیونکہ نابالغ پر زکوٰۃ واجب نہیں ہوتی۔
ہاں! بالغ بچوں میں سے ہر ایک کے حصہ میں جو رقم اور سونا آرہا ہے، ان دونوں کے مجموعہ کی قیمت اگر نصاب (ساڑھے باؤن تولہ چاندی کی مالیت) کے برابر ہو تو ہر ایک پر اس کے حصہ کی زکوٰۃ واجب ہوگی۔
البتہ اگر آپ نے مذکورہ سونا اور رقم تقسیم کرکے بچوں کی ملکیت میں نہیں دیا ہے، صرف ان کے نام پر کیا ہے تو اس صورت میں یہ سونا اور رقم آپ کی ملکیت شمار ہوگی، اور اس کی زکوٰۃ آپ پر واجب ہوگی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
الھدایة: (95/1، ط: دار احياء التراث العربي)
الزكاة واجبة على الحر العاقل البالغ المسلم إذا ملك نصابا ملكا تاما وحال عليه الحول " أما الوجوب فلقوله تعالى: {وَآتُوا الزَّكَاةَ} [البقرة: 43] ولقوله صلى الله عليه وسلم " أدوا زكاة أموالكم " وعليه إجماع الأمة. والمراد بالواجب الفرض۔
شرح المجلة لسلیم رستم باز: (رقم المادة: 57، 42/1، ط: اتحاد)
والتبرع لا یتم إلا بالقبض، فإذا وہب أحد لآخر شیئا لا تتم هبة إلا بقبضه.
واللّٰه تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی