سوال:
چھوٹے نابالغ بچوں کو جو پیسے ملتے ہیں، والدین اس کو استعمال کر سکتے ہیں یا نہیں؟
جواب: واضح رہے کہ بچوں کو جو تحفے تحائف دیئے جاتے ہیں، اس میں عرف کا اعتبار کیا جائیگا، بعض دفعہ وہ تحفہ چھوٹی سی نقد رقم کی صورت میں ھوتا ہے، مثلاً : دس، بیس روپے وغیرہ، اس صورت میں یہ رقم بچے کی ہی ملکیت ہوگی، وہ جیسے چاہے اسے خرچ کرے، اس صورت میں اس کے والدین بھی اس کی مرضی اور اجازت کے بغیر اس میں تصرف نہیں کر سکتے۔
البتہ بعض دفعہ وہ رقم یا چیزیں ظاہراً بچے کے ہاتھ میں دی جاتی ہیں، لیکن عرفاً وہ اس کے والدین کو دینا مقصود ہوتی ہیں، اس صورت میں ان چیزوں کے مالک والدین ہی ہونگے، وہ اس میں جو چاہیں تصرف کرسکتے ہیں۔
پھر اس میں بھی تفصیل ہے کہ اگر وہ ھدیہ (تحفہ) والد کے رشتہ داروں کی طرف سے دیا گیا ہے، تو اس کا مالک والد ھوگا، اور اگر والدہ کے رشتہ داروں کی طرف سے دیا گیا ہو، تو اس کی مالکہ والدہ ھوگی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
الفقہ الاسلامی و ادلتہ: (3261/4، ط: دار الفکر)
«تنعقد الهبة بالإيجاب والقبول وتتم بالقبض». وذكر الفقهاء أن الولي ينوب مناب القاصر في القبض، فلو وهب أحد الأولياء للصغير شيئا، والمال في أيديهم صحت الهبة، ويصيرون قابضين للصغير
الجوھرۃ النیرۃ: (285/1، ط: المطبعۃ الخیریۃ)
تصرف الإنسان في مال غيره لا يجوز إلا بإذن أو ولاية.
بدائع الصنائع: (127/6، ط: دار الکتب العلمیۃ)
أما أصل الحكم فهو ثبوت الملك للموهوب له في الموهوب من غير عوض لأن الهبة تمليك العين من غير عوض فكان حكمها ملك الموهوب من غير عوض.
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی