سوال:
کیا بینک میں اکاؤنٹ رکھنا بینک کی معاونت میں شامل ہے؟
جواب: کسی شخص کا "کرنٹ اکاؤنٹ" میں رقم رکھوانا سودی معاملات کا ایسا سبب نہیں ہے کہ اگر یہ شخص بینک میں رقم نہیں رکھوائے گا تو بینک سودی لین دین کے گناہ میں مبتلا نہیں ہوگا اور عام طور پر بینک میں رقم رکھوانے والے کا یہ مقصد نہیں ہوتا کہ وہ سودی معاملات میں بینک کی مدد کرے، بلکہ اپنی رقم کی حفاظت مقصود ہوتی ہے اور رقم رکھوانے والے کو یقینی طور پر یہ معلوم نہیں ہوتا کہ اس کی رقم سودی لین دین میں لگائی جائے گی، بلکہ اس کا بھی احتمال ہے کہ اس کی رقم بینک میں محفوظ رکھی جائے اور اس کا بھی احتمال ہوتا ہے کہ اس کی رقم کسی جائز اور مشروع لین دین میں لگائی جائے، لیکن اگر بالفرض بینک نے اس کی رقم سودی کاروبار میں بھی لگادی ہو، تب بھی کرنسی کا اصول یہ ہے کہ وہ جائز عقود معاوضہ میں متعین کرنے سے متعین نہیں ہوتی ہے، لہذا سودی معاملات کو "کرنٹ اکاؤنٹ" کی طرف منسوب نہیں کیا جائے گا، بلکہ ان معاملات کو اس رقم کی طرف منسوب کیا جائے گا، جو بینک کی اپنی ملکیت ہوگئیں۔
زیادہ سے زیادہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ کرنٹ اکاؤنٹ میں رقم رکھوانا مکروہ تنزیہی ہے۔
(مستفاد از اسلام اور جدید معاشی مسائل: ج: 5، ص: 219۔220،ط: ادارہ اسلامیات، کراچی)
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی