سوال:
مفتی صاحب! میری شادی کو پانچ سال ہوچکے ہیں، میں نے اپنی خالہ زاد بہن سے نکاح کیا تھا، ہم خوشی خوشی رہ رہے تھے، ایک دفعہ میری خالہ نے کہا کہ بچپن میں میں نے تمہیں بہلانے کے لئے دودھ پلایا تھا، جب کہ تمہاری عمر ڈیڑھ سال کی تھی، اب یہ بات مجھے بہت پریشان کر رہی ہے، سوال یہ ہے کہ کیا میرا اور میری بیوی کا نکاح ٹوٹ چکا ہے، یا بر قرار ہے؟
جواب: واضح رہے کہ صرف عورت کا دودھ پلانے کا دعویٰ کرنے سے حرمتِ رضاعت ثابت نہیں ہوتی ہے، بلکہ اس پر گواہ موجود ہونا ضروری ہے، لہذا اگر آپ کی خالہ کے دودھ پلانے کے دعوے پر دو ثقہ مرد یا ایک مرد اور دو عورتوں کی گواہی موجود ہے، تو آپ دونوں میاں، بیوی نہیں ہیں، بلکہ رضاعی بہن بھائی ہیں، اور آپ دونوں کا نکاح صحیح نہیں ہے، اور اگر گواہ موجود نہیں ہیں، تو محض دودھ پلانے کے دعوے سے رضاعت ثابت نہیں ہوگی، اور آپ دونوں کا نکاح برقرار رہے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
الدر المختار: (224/3- 225، ط: دار الفکر)
(و) الرضاع (حجته حجة المال) وهي شهادة عدلين أو عدل وعدلتان، لكن لا تقع الفرقة إلا بتفريق القاضي لتضمنها حق العبد (وهل يتوقف ثبوته على دعوى المرأة؛ الظاهر لا) لتضمنها حرمة الفرج وهي من حقوقه تعالى (كما في الشهادة بطلاقها)۔
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی