عنوان: بیوی کا مکان خریدتے ہوئے بغیر کسی صراحت کے شوہر کو پیسے دینا، نیز کچھ ورثاء کا ذاتی استعمال کے لیے ورثاء کی اجازت اور رقم کی صراحت کے بغیر متروکہ مکان میں تعمیرات کرانا (13334-No)

سوال: مجھے جائیداد کی تقسیم کے سلسلے میں آپ کی رہنماٸی چاہیے۔ ہم چار بہن بھاٸی ہیں اور ہم سب شادی شدہ ہیں، بڑی بہن کی عمر53 برس، بھاٸی کی عمر 51 برس، دوسری بہن کی عمر 48 برس اور میری عمر 44 برس ہے۔ ہمارا بس ایک ہی گھر ہے جو والد صاب نے 1980 میں خریدا تھا اور والدہ کے نام رکھا تھا۔ والد صاحب 1998 میں انتقال کر گئے تھے، اب اس گھر میں ہم دونوں بھاٸی اپنی والدہ کے ساتھ رہائش پذیر ہیں۔
گھر پرانہ تھا، اس لیے 2016 میں ہم دونوں بھاٸیوں نے مل کر اس گھرکی تعمیر کراٸی تھی، جس پر ایک کروڑ کی لاگت آٸی تھی جو ہم دونوں بھائیوں نے 50/50 لاکھ مل کر حصہ ڈالا تھا۔ ہماری دونوں بہنوں نے اب والدہ سے حصے کی مانگ کی ہے۔
محترم میرا سوال یہ ہے کہ کیا میری والدہ پر شرعی حکم نافذ ہوتا ہے کہ ابھی تقسیم کریں کیونکہ والدہ حیات ہیں اور وہ گھر فروخت کرنے پر راضی نہی ہیں؟
میرا دوسرا سوال یہ ہے کہ میرے بھاٸی والدہ سے کہتے ہیں کہ ہم 2016 میں تعمیر سے پہلے جو گھر کی مالیت تھ، اس کے مطابق اپنی بہنوں کو حصہ دیں گے، جبکہ اس وقت ایسی کوٸی بات طے نہیں ہوئی تھی۔ اُس وقت کی مالیت اور آج کی قیمت میں کافی فرق ہے۔
محترم آپ سے گزارش ہے کہ اس میں ہماری رہنماٸی فرمائیں کہ شرعی اعتبار سے ہمیں اس کی تقسیم کس مالیت اور طریقے سے کرنی چاہیے؟ جزاك اللهُ‎
تنقیح: محترم! اس بات کی وضاحت فرمائیں کہ (1) والدہ کے صرف نام کیا تھا یا ان کو مالکانہ تصرف کے ساتھ تمام اختیارات بھی دے دیے تھے؟
(2) تعمیرات میں رقم لگاتے ہوئے آپ دونوں بھائیوں نے ہدیہ یا قرض وغیرہ کی کوئی وضاحت کی تھی یا نہیں؟
ان دونوں باتوں کی وضاحت کے بعد آپ کے سوال کا جواب دیا جاسکے گا۔
جواب تنقیح:
۱) والدہ کے صرف نام کیا تھا اور کچھ بھی اختیار کے بارے میں نہیں کہا تھا، لیکن گھر خریدتے وقت کچھ رقم کی کمی کی وجہ سے والدہ کا 16 تولے سونے کا زیور فروخت کر کے رقم پوری کی گئی تھی۔
والدہ صاحبہ سے پوچھنے پر انہوں نے بتایا کہ گھر خریدتے وقت کل رقم کی ادائیگی کو پورا کرنے کے لئے والد صاحب نے سونے کے زیورات بیچنے کے لیے کہا اور والدہ صاحبہ نے اپنی رضامندی سے زیورات دیے، لیکن نہ تو واپسی کے تقاضے کی شرط رکھی تھی اور نہ ہی قرض کی نیت سے دیا تھا اور نہ ہی یہ کہا تھا کہ گھر میرے نام پر کر دیں۔ والد صاحب نے خود ہی اپنی مرضی سے گھر والدہ کے نام رکھا اور بیچنے کے اختیار کا نہ تو ذکر کیا اور نہ ہی دیا۔
۲) گھر میں اضافی کمروں کی ضرورت کے لیے تعمیر کروائی تھی اور اس وقت کوئی بات طے نہیں کی تھی، لیکن گھر بننے کے بعد ہم دونوں بھائوں نے والدہ سے کہا تھا کہ جب بھی گھر فروخت ہوگا تو ہم اپنی رقم نکال کر باقی رقم میں سے حصہ کریں گے۔

جواب: 1) واضح رہے کہ شریعت میں کسی چیز کا ہبہ (Gift) درست ہونے کے لیے اس چیز کا مالک بنا کر قبضہ دینا ضروری ہے، ورنہ یہ ہبہ (Gift) تام نہیں ہوتا ہے، اور اسی شخص کی ملکیت میں رہتا ہے۔
سوال میں پوچھی گئی صورت میں چونکہ والد صاحب نے وہ مکان صرف والدہ کے نام کیا تھا، لیکن انہیں مکمل اختیارات کے ساتھ قبضہ نہیں دیا تھا، بایں معنی کہ وہ اپنی مرضی سے ان کی زندگی میں اس میں تصرف (خرید و فروخت وغیرہ) نہیں کر سکتی تھیں، لہذا یہ مکان بدستور والد صاحب کی زندگی میں ان کی ملکیت میں ہی شمار ہوگا، اور ان کے انتقال کے بعد ان کے شرعی ورثاء میں شریعت کے میراث کے قانون کے مطابق تقسیم ہوگا، اور چونکہ اس مکان میں آپ کی بہنوں کا بھی حصہ ہے، لہذا ان کا اپنے حصہ کا مطالبہ کرنا درست ہے، تمام ورثاء پر لازم ہے کہ وہ ترکہ کو شرعی طریقہ کار کے مطابق جلد از جلد تقسیم کریں، تاکہ ہر صاحب حق کو اپنا حق مل جائے۔
2) چونکہ آپ دونوں بھائیوں نے دیگر ورثاء کی اجازت اور قرض کی صراحت کے بغیر اپنے ذاتی استعمال کے لیے پیسے لگائے ہیں، لہذا آپ دونوں بھائیوں کو اپنی تعمیر کردہ عمارت کے بدلے میں صرف اس کے ملبے کی قیمت ملے گی اور بقیہ کل مالیت تمام ورثاء (بشمول آپ دونوں بھائیوں) میں شرعی حصوں کے مطابق تقسیم کی جائے گی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

الفتاوى التاتارخانیة: (فیما یجوز من الھبة و ما لا یجوز، نوع منه، 431/14، ط: رشیدیه کوئته)
"و في المنتقى عن أبي يوسف: لايجوز للرجل أن يهب لامرأته و أن تهب لزوجها أو لأجنبي دارًا وهما فيها ساكنان، و كذلك الهبة للولد الكبير؛ لأن يد الواهب ثابتة علي الدار".

الدر المختار: (689/5، ط: سعید)
"بخلاف جعلته باسمك فإنه ليس بهبة"

تنقيح الفتاوى الحامدية: (155/2، ط: دار المعرفة)
والأصل أن من بنى في دار غيره بناء وأنفق في ذلك بأمر صاحبه كان البناء لصاحب الدار وللباني أن يرجع على صاحب الدار بما أنفق ا ه.*

الدر المختار مع رد المحتار: (260/6، ط: دار الفکر)
وقسم) المال المشترك (بطلب أحدهم إن انتفع كل) بحصته (بعد القسمة وبطلب ذي الكثير إن لم ينتفع الآخر لقلة حصته) وفي الخانية: يقسم بطلب كل وعليه الفتوى، لكن المتون على الأول فعليها المعول (وإن تضرر الكل لم يقسم إلا برضاهم) لئلا يعود على موضوعه بالنقض.
في المجتبى: حانوت لهما يعملان فيه طلب أحدهما القسمة إن أمكن لكل أن يعمل فيه بعد القسمة ما كان يعمل فيه قبلها قسم و إلا لا.

درر الحكام في شرح مجلة الأحكام: (314/3، ط: دار الجيل)
إذا عمر أحد الشريكين الملك المشترك ففي ذلك احتمالات أربعة: ...
الاحتمال الثاني - إذا عمر أحد الشريكين المال المشترك للشركة بدون إذن الشريك كان متبرعا...
الاحتمال الرابع - إذا عمر أحد الشريكين المال المشترك بدون إذن شريكه على أن يكون ما عمره لنفسه فتكون التعميرات المذكورة ملكا له وللشريك الذي بنى وأنشأ أن يرفع ما عمره من المرمة الغير المستهلكة. انظر شرح المادة (529) ما لم يكن رفعها مضرا بالأرض ففي هذا الحال يمنع من رفعها.

والله تعالىٰ أعلم بالصواب ‏
دارالافتاء الإخلاص،کراچی

Print Full Screen Views: 299 Nov 16, 2023
biwi ka makan kharidte hue baghair kisi sarahat ke shohar ko pese dena, neiz kuch wursa ka zati istemal ki liye wursa ki ijazat or raqam ki sarahat k baghair matroka makan me tamirat karana

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Inheritance & Will Foster

Managed by: Hamariweb.com / Islamuna.com

Copyright © Al-Ikhalsonline 2024.