سوال:
ہم راولپنڈی میں ایک مسجد میں تھے کہ وہاں پر کسی جوان لڑکے کا انتقال ہوگیا تھا تو اس کے گھر والوں نے اس کے استعمال کی چیزیں مثلاً تکیہ، کمبل، چادر وغیرہ مسجد میں لاکر رکھ دی تھیں تو کیا میت کے زیر استعمال چیزیں (کمبل وغیرہ) گھر والے استعمال کرسکتے ہیں یا نہیں؟
جواب: واضح رہے کہ انتقال کے وقت مرنے والا اپنی ملکیت میں جو کچھ منقولہ و غیر منقولہ مال، جائیداد، نقد روپے، زیورات، کپڑے اور کسی بھی طرح کا چھوٹا بڑا سامان چھوڑتا ہے، وہ سب اس کے ترکہ میں شامل ہوتے ہیں، جو اس کے شرعی ورثاء میں ان کے شرعی حصوں کے اعتبار سے تقسیم کرنا ضروری ہے۔ یہ چیزیں جن کے حصہ میں آئیں وہی اس کا مالک ہوگا اور وہی استعمال کرسکتا ہے، لہذا تقسیم سے پہلے کسی ایک وارث کا کوئی چیز اپنے استعمال میں لانا درست نہیں ہے، البتہ اگر تمام ورثاء بالغ ہوں اور ان میں سے کسی ایک کو اس پر اعتراض نہ ہو تو میت کی ان اشیاء کو استعمال کیا جا سکتا ہے۔ اسی طرح ورثاء کی باہمی رضامندی اور خوش دلی کے ساتھ اگر کسی کو یہ اشیاء ملکیتاً دے دی جائیں تو اس کی بھی اجازت ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
البحرالرائق: (557/8، ط: دار الكتاب الاسلامي)
المراد من التركة ما تركه الميت خاليا عن تعلق حق الغير بعينه.
رد المحتار: (759/6، ط: دار الفكر)
تركه الميت من الأموال صافيا عن تعلق حق الغير بعين من الأموال كما في شروح السراجية.
الفقه الإسلامي و أدلته: (7726/10، ط: دار الفكر)
وهي عند الحنفية: الأموال والحقوق المالية التي كان يملكها الميت. فتشمل الأموال المادية من عقارات ومنقولات وديون على الغير.
شرح المجلة لخالداتاسی: (الماده: 1071، ص: 12، ط: مکتبة اسلامية)
يجوز لأحد أصحاب الحصص التصرف مستقلا في الملك المشترك بإذن الآخر ، لكن لايجوز له أن يتصرف تصرفا مضرا بالشريك.
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی