عنوان: والدین کا اپنی زندگی میں مالدار بچوں کو چھوڑ کر صرف تنگدست بچے کو ہبہ (Gift) کرنا(13339-No)

سوال: میرے دو بیٹے اور دو بیٹیاں ہیں، دونوں بیٹے پاکستان سے باہر جاب کرتے ہیں اور بہت اچھا کماتے ہیں۔ ایک بیٹی کی بھی پاکستان سے باہر شادی ہوئی ہے، اور وہ (financially) مالی طور پر بہت مستحکم (stable) ہے، جبکہ چھوٹی بیٹی پاکستان میں ہی رہتی ہے اور وہ مالی طور پر باقی بہن بھائیوں سے کمزور ہے، خود بھی جاب کرتی ہے، تاکہ گھر کے اخراجات (expenses) پورے ہوجائیں۔
میرا سوال یہ ہے کہ اگر میں اس بیٹی کو اپنی زندگی میں ذاتی پیسوں سے کچھ چیز بطورِ گفٹ لے کر دوں یا کبھی پیسے دے دوں تو کیا میں ایسا کرنے سے باقی اولاد کی حق تلفی کروں گا؟ اور کیا یہ میرے گناہ گار ہونے کا سبب بنے گا؟ براہ کرم اس سے متعلق میری رہنمائی فرمادیں۔

جواب: واضح رہے کہ والد اپنی زندگی میں اپنے مال وجائیداد کا بذات خود مالک ہے، اور مرنے سے پہلے اولاد کا اس کے مال وجائیداد میں کوئی حصہ مقرر نہیں ہے، زندگی میں باپ کی طرف سے اولاد کو جو کچھ دیا جاتا ہے، وہ ہبہ(گفٹ) ہوتا ہے، اور اولاد کے درمیان ہبہ میں شرعاً برابری پسندیدہ ہے، لیکن اگر وہ کسی بچے کو کسی معقول وجہ سے زیادہ دے دے، (مثلا اولاد میں سے کوئی زیادہ غریب یا زیادہ خدمت گزار ہو یا علم دین میں مشغول ہو یا اور کوئی دوسری وجہ فضیلت ہو) تو شرعاً وہ گناہ گار نہیں ہوگا۔
لہذا پوچھی گئی صورت میں چونکہ آپ کا مقصد دوسری اولاد کی حق تلفی یا ان کو محروم کرنا نہیں ہے، اس لیے آپ اپنی اس غریب بچی کو کوئی بھی چیز مالکانہ تصرف کے ساتھ ہبہ (Gift) کرنے سے گناہگار اور دوسرے بچوں کی حق تلفی کرنے والے شمار نہیں ہوں گے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

بدائع الصنائع: (كتاب الهبة، 127/6، ط: دار الكتب العلمية)
وينبغي للرجل أن يعدل بين أولاده في النحلى لقوله سبحانه وتعالى {إن الله يأمر بالعدل والإحسان} [النحل: 9].
(وأما) كيفية العدل بينهم فقد قال أبو يوسف العدل في ذلك أن يسوي بينهم في العطية ولا يفضل الذكر على الأنثى وقال محمد العدل بينهم أن يعطيهم على سبيل الترتيب في المواريث للذكر مثل حظ الأنثيين كذا ذكر القاضي الاختلاف بينهما في شرح مختصر الطحاوي وذكر محمد في الموطإ ينبغي للرجل أن يسوي بين ولده في النحل ولا يفضل بعضهم على بعض.
وظاهر هذا يقتضي أن يكون قوله مع قول أبي يوسف وهو الصحيح لما روي أن بشيرا أبا النعمان أتى بالنعمان إلى رسول الله - صلى الله عليه وسلم - فقال إني نحلت ابني هذا غلاما كان لي فقال له رسول الله - صلى الله عليه وسلم - كل ولدك نحلته مثل هذا فقال لا فقال النبي - عليه الصلاة والسلام - فأرجعه وهذا إشارة إلى العدل بين الأولاد في النحلة وهو التسوية بينهم ولأن في التسوية تأليف القلوب والتفضيل يورث الوحشة بينهم فكانت التسوية أولى ولو نحل بعضا وحرم بعضا جاز من طريق الحكم لأنه تصرف في خالص ملكه لا حق لأحد فيه إلا أنه لا يكون عدلا سواء كان المحروم فقيها تقيا أو جاهلا فاسقا على قول المتقدمين من مشايخنا وأما على قول المتأخرين منهم لا بأس أن يعطي المتأدبين والمتفقهين دون الفسقة الفجرة.

عمدة القاري: (کتاب الھبة، 146/13، ط: دار إحياء التراث العربي)
يجوز التَّفَاضُل إِن كَانَ لَهُ سَبَب، كاحتياح الْوَلَد لزمانته أَو دينه أَو نَحْو ذَلِك. وَقَالَ أَبُو يُوسُف: تجب التَّسْوِيَة إِن قصد بالتفضيل الْإِضْرَار، وَذهب الْجُمْهُور إِلَى أَن التَّسْوِيَة مُسْتَحبَّة، فَإِن فضل بَعْضًا صَحَّ وَكره، وحملوا الْأَمر على النّدب وَالنَّهْي على التَّنْزِيه.

واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی

Print Full Screen Views: 377 Nov 19, 2023
waldain ka apni zindagi me maldar bacho ko chor kar sirf tankdast bachay ko gift karna

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Inheritance & Will Foster

Managed by: Hamariweb.com / Islamuna.com

Copyright © Al-Ikhalsonline 2024.