سوال:
مفتی صاحب! مجھے کچھ ماہ سے مقدس شخصیات سے متعلق گستاخانہ وسوسے آرہے ہیں۔ آج صبح میں سویا اور کچی نیند میں تھا تو ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ وسوسے آرہے ہیں۔ پھر میری آنکھ کھلی فورا تو نعوذ باللہ میرے منہ سے گالی نکلی۔ میں نے جان کر نہیں نکالی وہ اٹھتے ہی نکلی اور مجھے یہ بھی یقین ہے کہ وہ گالی وسوسے سے متعلق نہیں تھی اور نہ گالی کے وقت میرے ذھن میں کچھ تھا، کیا یہ مجھ سے گستاخی یا کفر ہو گیا ہے؟ اب کیا شرعی حکم لگے گا؟
جواب: اگر واقعتاً آپ نے مذکورہ جملہ اختیار سے نہیں کہا، بلکہ ان غیر اختیاری وساوس کی وجہ سے بغیر ارادہ کے آپ کے منہ سے نکلا ہے تو آپ کے ایمان پر کوئی اثر نہیں پڑا، البتہ اس پر آپ کو توبہ و استغفار کرنا چاہیے اور ہر ممکن کوشش کرکے آئندہ اس سے بچنا چاہیے، نیز احتیاطاً تجدید ایمان بھی کرلیں۔
واضح رہے کہ غیر اختیاری طور پر وساوس اور غلط خیالات کا آنا گناہ نہیں ہے، بلکہ جس وسوسہ کا آپ نے ذکر کیا ہے، اس طرح کے وسوسوں کا آنا اور ان وساوس کو برا سمجھنا ایمان کی علامت ہے، جیسا کہ ایک حدیث میں آتا ہے کہ:"بعض صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر آپ ﷺ سے پوچھا کہ: "ہم (بعض اوقات) اپنے دلوں میں ایسے خیالات محسوس کرتے ہیں کہ ہم میں سے کوئی ان کو اپنی زبان پر لانے کو بہت سنگین سمجھتا ہے، آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: کیا تم واقعی اس طرح محسوس کرتے ہو؟ تو انہوں نے عرض کیا : جی بالکل! تو اس پر آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ یہ (تو ) واضح ایمان (کی علامت) ہے"۔ (صحیح مسلم، حدیث نمبر: 132)
اس طرح کے وساوس کا آسان علاج یہ ہے کہ ان کی طرف دھیان نہ دیا جائے، بلکہ انہیں جھڑک کر خود کو کسی دوسرے کام میں مشغول کرنا چاہیے، اس کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ سے دعا کریں کہ وہ اس طرح کے خیالات سے نجات عطا فرمائیں، نیز ذیل میں کچھ علاج لکھے جاتے ہیں، ان پر عمل کرکے وساوس سے نجات حاصل کی جاسکتی ہے:
1) محدثین کرام نے احادیث طیبہ کی روشنی میں لکھا ہے کہ جب اس طرح کا وسوسہ آئے تو یہ پڑھ لے: "اللَّهُ أَحَدٌ اللَّهُ الصَّمَدُ لَمْ يَلِدْ وَلَمْ يُولَدْ وَلَمْ يَكُنْ لَهُ كُفُوًا أَحَدٌ" اور اس کے بعد تین مرتبہ بائیں طرف تھوک کر" أعوذ بالله من الشيطن الرجيم" پڑھ لے (ابوداؤد، حديث نمبر: 4722) اور پھر آخر میں "آمنت ُبالله" پڑھ لے۔(صحیح مسلم، حديث نمبر: 134)
2) "لاحول ولاقوۃ إلا بالله " كا كثرت سے ورد كرنا مطلقاً وساوس کو دفع کرنے میں مفید ہے۔
3) قرآنی دعا "رَبِّ أَعُوْذُبِكَ مِنْ هَمَزٰتِ الشَّیٰطِیْنِ وَأَعُوْذُ بِكَ رَبِّ أنْ یَّحْضُرُوْن" کا اہتمام کیا جائے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
صحيح مسلم: (رقم الحديث: 132)
عن أبي هريرة، قال: جاء ناس من أصحاب النبي صلى الله عليه وسلم، فسألوه: إنا نجد في أنفسنا ما يتعاظم أحدنا أن يتكلم به، قال: «وقد وجدتموه؟» قالوا: نعم، قال: «ذاك صريح الإيمان».
صحيح مسلم: (رقم الحديث: 134)
عن أبي هريرة قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "لا يزال الناس يتساءلون حتى يقال هذا خلق الله الخلق فمن خلق الله فمن وجد من ذلك شيئا فليقل آمنت بالله".
أخبرني عروة بن الزبير أن أبا هريرة قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: يأتي الشيطان أحدكم فيقول من خلق كذا وكذا حتى يقول له من خلق ربك فإذا بلغ ذلك فليستعذ بالله ولينته.
سنن أبي داود: (رقم الحديث: 4722)
عن أبي هريرة، قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: فذكر نحوه، قال: "فإذا قالوا ذلك فقولوا: الله أحد الله الصمد لم يلد ولم يولد ولم يكن له كفوا أحد ثم ليتفل عن يساره ثلاثا وليستعذ من الشيطان".
شرح النووي على مسلم: (155/2، ط: دار إحياء التراث العربي)
وأما قوله صلى الله عليه و سلم فليستعذ بالله ولينته فمعناه اذا عرض له هذا الوسواس فليلجأ إلى الله تعالى فى دفع شره عنه وليعرض عن الفكر فى ذلك وليعلم أن هذا الخاطر من وسوسة الشيطان وهو انما يسعى بالفساد والاغواء فليعرض عن الاصغاء إلى وسوسته وليبادر إلى قطعها بالاشتغال بغيرها والله أعلم.
عمدة القاري شرح صحيح البخاري: (172/15، ط: دار إحياء التراث العربي)
ومعنى: فليستعذ، أي: قل أعوذ بالله من الشيطان الرجيم، من الأعراض والشبهات الواهية الشيطانية.
مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح: (144/1، ط: دار الفكر)
(لا يزال الناس يتساءلون) أي: لا ينقطعون عن سؤال بعضهم بعضا في أشياء… أو المراد بالتساؤل حكاية النفس، وحديثها، ووسوستها، وهذا هو الظاهر من التفل، والاستعاذة، ويؤيد الأول قوله: (فإذا قالوا ذلك فقولوا الله أحد) : يعني قولوا في رد هذه المقالة، أو الوسوسة الله تعالى ليس مخلوقا، بل هو أحد… (ثلاثا) أي: ليلق البزاق من الفم ثلاث مرات، وهو عبارة عن كراهة الشيء، والنفور عنه كمن يجد جيفة، والتكرار مراغمة للشيطان، وتبعيد له لينفر منه، ويعلم أنه لا يطيعه فيه، ويكره الكلام المذكور منه (وليستعذ) : ضبط بالوجهين (بالله من الشيطان الرجيم) : والاستعاذة طلب المعاونة على دفع الشيطان۔
و فيها: (1/ 138)
وأما ما ذكره الطيبي، وتبعه ابن حجر من أن هذا القول كفر، فمن تكلم به فليتداركه بكلمة الإيمان، ففي كونه مرادا نظر ظاهر؛ لأنه لا يصح بالنسبة إلى السائل المجادل الذي هو من جملة شياطين الإنس، أو الجن على التغليب، كما ينصره الحديث السابق، ولا من المسئول؛ لأنه مؤمن صريح الإيمان، ولأن قوله في هذا الحديث: فليقل إنما هو بالنسبة إلى المسئول كقوله: فليستعذ في الحديث الذي تقدم، والله أعلم. ولذا قيل: يسن له أن يستعيذ، ثم يقول آمنت بالله، ورسله.
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی