سوال:
کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ میری بیٹی اسماء بنت کمال حسین داماد حنیف بن عبدالرشید گزشتہ کچھ روز پہلے میرے گھر تشریف لائے تھے، اسی اثناء میں ہماری گفتگو اس سونے کے بارے میں ہوئی جو میرے داماد نے حق مہر کے عوض دیا تھا جو اب ان کی ماں یعنی میری بیٹی کی ساس نے غصب کیا ہوا ہے۔
ایام شادی میں ہم نے 95,000 روپے بوقت ضرورت استعمال کی غرض سے دیے تھے جو بعد میں انہیں واپس کرنے تھے۔
لیکن جب یہ سب گفتگو اور بحث ہوئی تو میرے داماد نے کہا کہ ہم سونا نہیں دیں گے اور ان کی ماں نے کہا کہ 95,000 بھی نہیں دیں گے۔ اور آخر میں جاتے ہوئے میرے داماد نے یہ الفاظ کہے اور چل دیا "کہ اگر آج یہ میرے ساتھ جاتی ہے تو پھر واپس اس گھر میں نہیں آئے گی اور اگر نہیں آتی ہے آج تو پھر اپنا فرنیچر اور سامان اٹھوالیں" اب اس سب کیفیت کو دیکھتے ہوئے آپ سے جواب مطلوب ہے کہ آیا اس سے طلاق واقع ہوئی ہے کہ نہیں؟
جواب: سوال میں ذکر کردہ صورت میں طلاق کے الفاظ نہیں ہیں، اس لیے ان سے کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی، تاہم شوہر کو اس طرح کے الفاظ بولنے سے اجتناب کرنا چاہیے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
الفتاوى الهندية: (348/1، ط: دار الفکر)
(أما تفسيره) شرعا فهو رفع قيد النكاح حالا أو مآلا بلفظ مخصوص كذا في البحر الرائق، (وأما ركنه) فقوله: أنت طالق. ونحوه كذا في الكافي.
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی