سوال:
مفتی صاحب! سوال یہ ہے کہ جہیز کی شریعت میں کیا حیثیت ہے، بعض لوگ اسے ناجائز کہتے ہیں، اور بعض لوگ کہتے ہیں کہ جہیز دینے میں کوئی حرج نہیں ہے، براہِ مہربانی صحیح رہنمائی فرمادیں؟
جواب: شادی کے موقع پر اپنی بیٹی کو ضرورت کے بقدر کچھ سامان دینا سنت سے ثابت ہے، حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی چہیتی بیٹی حضرت فاطمۃ الزھراء رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو شادی کے موقع پر ایک عدد چادر، ایک مشکیزہ اور ایک تکیہ جہیز میں دیا تھا، لیکن آج کل جہیز کی جو مروجہ صورتیں ہیں کہ اپنی استطاعت سے زیادہ جہیز دینا، جہیز کے سامان کی بےجا نمود و نمائش، اسراف اور سودی قرضے لینا، لڑکے والوں کا جہیز کے سامان کا بےجا مطالبات کرنا، اور جہیز کے سامان کم ہونے پر لڑکی کو طعن و تشنیع کرنا، یہ صورتیں جائز نہیں ہیں، تاہم اگر یہ باتیں نہ پائی جائیں، تو استطاعت کے مطابق ضرورت کے بقدر جہیز کا سامان دینے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
سنن النسائی: (77/2)
عن على رضى الله عنه قال جهز رسول الله -صلى الله عليه وسلم- فاطمة فى خميل وقربة ووسادة حشوها إذخر.
رد المحتار: (584/3، ط: دار الفکر)
قوله ( وفي البحر الخ ) وعبارته والحاصل أن المرأة ليس عليها إلا تسليم نفسها في بيته وعليه لها جميع ما يكفيها بحسب حالها من أكل وشرب ولبس وفرش۔
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی