عنوان: جانور کو اصل قیمت سے زیادہ بکوانے پر زائد رقم کمیشن کے طور پر لینے کا حکم (13370-No)

سوال: حضرت مفتی صاحب! میں ایک سرکاری جانوروں کا ڈاکٹر ہوں اور اس کے ساتھ جانوروں کا کام بھی بطور ایجنٹ کرتا ہوں تو مجھے یہ مسئلہ پیش آتا ہےکہ فروخت کنندہ ہم سے یہ بات کرتا ہے کہ یہ میری گائے دو لاکھ کی ہے، اس سے اوپر آپ پانچ ہزار یا دس ہزار میں فروخت کروادیں وہ آپ کا ہوگا اور اگر دو لاکھ سے کم کی بکی تو ہم آپ کو کچھ نہیں دیں گے۔ پوچھنا یہ ہے کہ آیا اس طرح معاملہ کرنا جائز ہے یا نہیں؟

جواب: واضح رہے کہ کمیشن ایجنٹ کے طور پر کام کرنے کے لیے دیگر شرائط کے ساتھ ساتھ کمیشن ایجنٹ کی اجرت (کمیشن) کا بھی معلوم اور متعین ہونا ضروری ہے، اجرت کے متعین نہ ہونے کی صورت میں کمیشن کا معاملہ درست نہیں ہوگا۔
پوچھی گئی صورت میں بطور کمیشن ایجنٹ آپ کی اجرت (کمیشن) معلوم اور متعین نہیں ہے، کیونکہ ہوسکتا ہے کہ وہ گائے دو لاکھ سے زائد کی بک جائے اور اضافی رقم آپ کو مل جائے، اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ وہ گائے صرف دو لاکھ ہی میں بکے اور آپ کو کچھ نہ ملے، لہذا کمیشن کے متعین نہ ہونے کی وجہ سے یہ معاملہ شرعا فاسد ہے۔
اس کا درست طریقہ یہ ہے کہ ایک متعین رقم کمیشن کے طور پر طے کی جائے یا فیصد کے اعتبار سے کمیشن مقرر کیا جائے۔
البتہ سوال میں ذکر کردہ طریقہ کے مطابق کمیشن طے کرنا امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کے نزدیک درست ہے، اور حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کے قول سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے، نیز آج کل اس کا عرف بھی ہوچکا ہے، اس لئے معاملات میں توسع کے پیش نظر اگر اس طرح کا معاملہ ہوجائے تو اس سے حاصل ہونے والے نفع کو ناجائز نہیں کہا جائے گا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

عمدة القاري: (93/12، ط: دار احیاء التراث العلمی)
"وقال ابن عباس لا بأس أن يقول بع هذا الثوب فما زاد على كذا وكذا فهو لك
هذا التعليق وصله ابن أبي شيبة عن هشيم عن عمرو بن دينار عن عطاء عن ابن عباس نحوه.
وقال ابن سيرين إذا قال بعه بكذا فما كان من ربح فهو لك أو بيني وبينك فلا بأس به۔ هذا التعليق أيضا وصله ابن أبي شيبة عن هشيم عن يونس عن ابن سيرين، وفي (التلويح) : وأما قول ابن عباس وابن سيرين فأكثر العلماء لا يجيزون هذا البيع، وممن كرهه: الثوري والكوفيون، وقال الشافعي ومالك: لا يجوز، فإن باع فله أجر مثله، وأجازه أحمد وإسحاق"

رد المحتار: (63/6، ط: دار الفكر)
قال في التتارخانية: وفي الدلال والسمسار يجب أجر المثل، وما تواضعوا عليه أن في كل عشرة دنانير كذا فذاك حرام عليهم. وفي الحاوي: سئل محمد بن سلمة عن أجرة السمسار، فقال: أرجو أنه لا بأس به وإن كان في الأصل فاسدا لكثرة التعامل وكثير من هذا غير جائز، فجوزوه لحاجة الناس إليه كدخول الحمام وعنه قال: رأيت ابن شجاع يقاطع نساجا ينسج له ثيابا في كل سنة.

النتف في الفتاوى للسغدي: (575/2، ط: دار الفرقان)
"والْخَامِس اجارة السمسار لايجوز ذَلِك وَكَذَلِكَ لَو قَالَ بِعْ هَذَا الثَّوْب بِعشْرَة دَرَاهِم فَمَا زَاد فَهُوَ لَك وان فعل فَلهُ اجْرِ الْمثل"

کذا فی تبویب فتاوی دار العلوم کراتشی: رقم الفتوی: 1593/32

واللّٰه تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی

Print Full Screen Views: 389 Nov 28, 2023
janwar ki asal kimat se ziyada bikne per zayed raqam commition k tor per lene ka hukum

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Business & Financial

Managed by: Hamariweb.com / Islamuna.com

Copyright © Al-Ikhalsonline 2024.