سوال:
مفتی صاحب! ایک دوست نے پوچھا ہے کہ امام کو نماز پڑھاتے ہوئے کیا نیت کرنی ہوتی ہے؟
جواب: واضح رہے کہ امام کے لیے امامت کی نیت ضروری نہیں ہے، لہذا اگر کوئی امام امامت کی نیت نہ کرے تب بھی اس کے پیچھے نماز پڑھنے والوں کی اقتدا درست ہوجاتی ہے، البتہ امام کو امامت کا ثواب اسی وقت ملے گا جب وہ لوگوں کی امامت کی نیت بھی کرے گا۔ ہاں ! اگرامام کے پیچھے عورت نماز پڑھے گی تو عورت کی اقتدا اسی صورت میں درست ہوگی جب امام عورتوں کی امامت کی نیت کرے گا، نیز واضح رہے کہ نیت دل کے ارادے کا نام ہے، اس کے لیے زبان سے کچھ کہنا ضروری نہیں، لہذا اگر امام کے دل میں یہ ارادہ ہو کہ میں امامت کررہا ہوں، اسی ارادے سے اس کو امامت کی نیت اور جماعت کا ثواب مل جائے گا، البتہ مقتدی کے لیے اقتدا کی نیت ضروری ہے، اگر مقتدی اقتدا کی نیت کیے بغیر اقتدا کرے گا تواس کی نماز درست نہیں ہوگی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
بدائع الصنائع: (128/1، ط: دار الكتب العلمية)
وهل يحتاج إلى نية الإمامة؟ أما نية إمامة الرجال فلا يحتاج إليها ويصح اقتداؤهم به بدون نية إمامتهم.
وأما نية إمامة النساء فشرط لصحة اقتدائهن به عند أصحابنا الثلاثة، وعند زفر ليس بشرط، حتى لو لم ينو لم يصح اقتداؤهن به عندنا.
الدر المختار مع رد المحتار: (424/1، ط: دار الفكر)
(والإمام ينوي صلاته فقط) و (لا) يشترط لصحة الاقتداء نية (إمامة المقتدي) بل لنيل الثواب عند اقتداء أحد به۔۔الخ
قوله لصحة الاقتداء أي بل يشترط نية إمامة المقتدي لنيل الإمام ثواب الجماعة.
الاشباه و النظائرلابن نجيم: (ص: 24، ط: دار الكتب العلمية)
ولا يصح الاقتداء بإمام إلا بنية وتصح الإمامة بدون نيتها خلافا للكرخي وأبي حفص الكبير، كما في البناية إلا إذا صلى خلفه نساء، فإن اقتداءهن به بلا نية الإمام للإمامة غير صحيح.
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی