سوال:
اسد اور سدرہ دونوں میاں بیوی ہیں، اسد اپنی خالہ کی بیٹی سے بہت محبت کرتا ہے، وہ اس سے شادی کرنا چاہتا ہے، جب سدرہ کو پتہ چلا تو بہت روئی، اس نے رو رو کر اپنے شوہر کو کہا کہ ہما سے دوسری شادی سے مت کریں، اس پر شوہر نے اپنی بیوی کو لکھ کر دیا کہ ہما کو طلاق ہے، طلاق ہے، دو مرتبہ لکھا اور پھر ایک مرتبہ زبان سے بھی کہا، اب اگر اس نے ہما سے شادی کی تو کیا اس پر طلاق واقع ہوجائے گی؟ نیز شوہر نے یہ بھی کہا کہ اگر میں دوسری شادی کروں تو سدرہ کی طرف سے یعنی سدرہ کے کہنے پر اس کو طلاق طلاق طلاق تو کیا اس سے طلاق واقع ہوجائے گی؟
جواب: جواب سے پہلے بطور تمہید دو باتیں سمجھنا ضروری ہیں:
1) واضح رہے کہ جب تک کسی عورت سے نکاح نہ ہو جائے، اس سے پہلے اس عورت کو دی جانے والی طلاق معتبر نہیں ہوتی ہے۔
2) اگر طلاق کو نکاح سے مشروط کیا جائے تو نکاح ہوتے ہی وہ طلاق واقع ہو جاتی ہے۔
پوچھی گئی صورت میں اسد کا اپنی خالہ کی بیٹی "ہما" (جو کہ اب تک اس کے نکاح میں نہیں آئی ہے) کے متعلق یہ لکھنا اور منہ سے کہنا کہ "ہُما کو طلاق ہے، طلاق ہے" ان جملوں کا اعتبار نہیں ہے، ان سے کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی ہے، کیونکہ "ہُما" اسد کے نکاح میں ہی نہیں ہے۔
نیز سوال میں یہ درج ہے کہ اسد نے یہ بھی کہا ہے: "اگر میں دوسری شادی کروں تو سدرہ کی طرف سے یعنی سدرہ کے کہنے پر اس کو طلاق طلاق طلاق"، اس جملے میں چونکہ طلاق کو نکاح کے ساتھ مشروط کیا گیا ہے، لہذا جب اسد دوسری شادی کرے گا تو شرط پائے جانے کی وجہ سے طلاق واقع ہو جائے گی، البتہ سوال میں یہ وضاحت نہیں کی گئی ہے کہ اسد اپنی دوسری شادی پر کس بیوی کی طلاق معلق کر رہا ہے؟ پہلی بیوی کی یا دوسری بیوی کی؟ اگر پہلی بیوی کی طلاق معلق ہے تو دوسری شادی کرتے ہی پہلی بیوی پر تین طلاقیں واقع ہو جائیں گی اور میاں بیوی کے درمیان حرمت مغلظہ ثابت ہو جائے گی اور اگر دوسری بیوی کی طلاق کو معلق کیا ہے تو اس سے نکاح کے فوراً بعد اس پر ایک طلاق بائن واقع ہوگی اور بقیہ دو طلاقیں واقع نہیں ہوں گی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
سنن أبي داؤد: (كتاب الطلاق، باب في الطلاق قبل النكاح، رقم الحديث: 2190)
عن عمرو بن شعيب، عن أبيه، عن جده، أن النبي صلى الله عليه وسلم قال: "لا طلاق إلا فيما تملك، ولا عتق إلا فيما تملك، ولا بيع إلا فيما تملك".
الهداية: (كتاب الطلاق، باب الأيمان في الطلاق، 196/3، ط: مكتبة البشرى)
"ولا تصح إضافة الطلاق إلا أن يكون الحالف مالكا أو يضيفه إلى ملك۔۔۔ فإن قال لأجنبية إن دخلت الدار فأنت طالق ثم تزوجها فدخلت الدار لم تطلق " لأن الحالف ليس بمالك ولا أضافه إلى الملك أو سببه ولا بد من واحد منهما".
الدر المختار مع رد المحتار: (344/3، ط: دار الفکر)
"(شرطه الملك) حقيقة كقوله لقنه: إن فعلت كذا فأنت حر أو حكما، ولو حكما (كقوله لمنكوحته) أو معتدته (إن ذهبت فأنت طالق) (، أو الإضافة إليه) أي الملك الحقيقي عاما أو خاصا، كإن ملكت عبدا أو إن ملكتك لمعين فكذا أو الحكمي كذلك (كإن) نكحت امرأة أو إن (نكحتك فأنت طالق)".
"(قوله أو الإضافة إليه) بأن يكون معلقا بالملك كما مثل، وكقوله: إن صرت زوجة لي أو بسبب الملك كالنكاح: أي التزوج".
الفتاوى الهندية: (كتاب الطلاق، الباب الرابع، الفصل الثالث في تعليق الطلاق بكلمة إن وإذا وغيرهما، 420/1، ط: رشيديه)
"إذا أضاف الطلاق إلى النكاح وقع عقيب النكاح نحو أن يقول لامرأة: إن تزوجتك فأنت طالق أو كل امرأة أتزوجها فهي طالق".
الدر المختار مع رد المحتار: (کتاب الطلاق، باب التعليق، مطلب في اختلاف الزوجين في وجود الشرط، 355/3، ط: سعید)
"(وتنحل) اليمين (بعد) وجود (الشرط مطلقا) لكن إن وجد في الملك طلقت وعتق وإلا لا".
"(قوله وتنحل اليمين إلخ) لا تكرار بين هذه وبين قوله فيما سبق وفيها تنحل اليمين إذا وجد الشرط مرة لأن المقصود هناك الانحلال بمرة في غير كلما وهنا مجرد الانحلال".
واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی